مجھے یاد یے جب ہم خط لکھا کرتے تھے اور اس کے جانے میں مہینہ بھر لگ جایا کرتا تھا ، پھر فوری جواب بھی بھیجا جاتا تو تب بھی ایک مہینہ اور لگ جاتا ۔ اور دو ڈھائی ماہ بعد کہیں اپنی کہی بات پر دوسرے کا جواب ان ترسی ہوئی منتظر آنکھوں کو ملا کرتا تو دل بڑی شدت سےخواہش کیا کرتا تھا کہ کاش کوئی ایسا طریقہ ہو کہ نام لو اور اس کی آواز سن لو ، سوال کا فورا جواب پالو ، دیکھنا چاہا تو پلک چھپکتے میں دوسرے کا دیدار کر لیا جائے ۔۔۔ فون کال بھی باقاعدہ بک کروائی جاتی تھی مجھے یاد یے 96ء میں 96 روپے فی منٹ کی کال فرانس کے لیئے تو میں بھی اپنے شوہر کے لیئے بک کروایا کرتی یا گورنمنٹ پی سی او پر کافی انتظار کے بعد میں جلدی جلدی اپنی بات پہلے سننے کا کہتی کہ جس کام کے لیئے فون کیا ہے وہ بھول نہ جائے اور پیسے ختم نہ ہو جائیں۔۔
اف خدایا کیا ترسا ہوا دور تھا وہ ، اور پھر خدا نے ہماری خواہش پوری کر دی ۔ ہماری دعائیں رنگ لے آئیں اور ہمیں انٹر نیٹ مل گیا موبائل مل گیا ، واٹس اپ نے تو گویا ہر مراد ہی پوری کر دی ، اور آج ہم جیسے ماضی پرست بیٹھے ہق ہائے کا نعرہ لگا کر اپنی طرف سے بڑی رومانوی یاد کے طور پر اس لمحہ لمحہ سسکتے دور کو یاد کرتے اور آہیں بھرتے ہیں کہ ہائے ہائے کیا دور تھا وہ خطوں کا لکھنا اور وہ جواب کے انتظار کی لذت۔۔۔۔ہائیں لذت؟؟؟ ارے بھائی یہ عذاب ناک انتظار اور اس کی تڑپ اور بیقراری لذت کب سے ہو گئی ۔ اور جس کے لیئے یہ لذت یے وہ یقینا کوئی ذہنی طور ہر ہلا ہوا ہی ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں ہر روز گزرے کل سے زیادہ آسانیاں عطا فرمائیں ہیں ۔ آسائشیں عطا فرمائیں ہیں ۔ اسے اپنی ناشکریوں کی نظر مت کیجیئے ۔ آج کے وقت میں شکرگزاری کیساتھ جینا سیکھیئے ۔ بھوکے ننگے ، ترسے ہوئے، تکلیفدہ زمانوں کو یاد کر کے اپنی آج کی خوشیوں پر پانی مت پھیریئے۔ آج کی آسانیوں اور آسائشوں کے بنا گزرے وقت کی تکلیفوں کو سچائی کیساتھ محسوس کر کے یاد کریں گے تو آپ کو آج کے دور کی آسانیاں قدر کی نگاہ سے دکھائی دینگی ۔
بلکہ یہ سوچ کر تو شکر گزاری اور بھی بڑھ جانی چاہیئے کہ اگر اس وقت یہ سہولت ہوتی جب ہمارے وہ پیارے اس دنیا میں موجود تھے (جن سے ہم نے دوریوں کے عذاب سہے) تو کتنا اچھا ہوتا ۔ کہتے تھے کہ خط آدھی ملاقات ہوتی ہے تو اب سماعت اور سماعت سے بڑھ کر بصارت یعنی آڈیو اور ویڈیو نے تو سمجھیئے ہماری دوریوں کا تصور ہی مٹا کر رکھ دیا ہے ۔ اٹھانوے فیصد ملاقات نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔ دو فیصد کسر رہ گئی ہے تو سامنے والے کو چھونے کی یا کسی چیز کو سونگھنے کی ، تو کیا بعید کہ بہت جلد چھونے اور سونگھنے کا عمل بھی اس میں شامل کر دیا جائے۔
آج سے پچاس سال سے پرانے کسی بھی شخص کو اچانک آج کے وقت میں لے آئیں تو یقینا یہ وقت اور آج کی دنیا اس کے ہوش اڑانے والی جادو نگری سے کم نہیں ہو گی ۔ بلکہ کئی آج کے دور میں موجود لوگوں کے لیئے بھی آج ہی دنیا کسی جادو نگری سے کم ہر گز نہیں ہے ۔ کچھ تو وہ ہیں جس کے وسائل یا پہنچ ان نئی ایجادات یا سہولیات تک نہیں ہے لیکن کئی ایسے بھی ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ ہی تعلیم کی ، ان چیزوں تک ان کی رسائی کوئی مسئلہ ہے نہ ہی حصول لیکن اس کے باوجود آج بھی ایسے لوگ نت نئی ایجادات خرید تو لیتے ہیں صرف دوسرے کے سامنے اس کی نمائش اور اپنی بڑائی دکھانے کے لیئے لیکن وہ اس چیز کے استعمال کرنے کے طریقے بالکل بھی نہیں جانتے ۔ اس سے وہ اس وقت کی ان ایجادات کے فوائد سے محروم ہی رہتے ہیں ۔ سو جب بھی کوئی جدید تیکنیکی چیز خریدیں تو تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر پہلے یا بعد از خرید اس آلے کے استعمال کو ضرور جانیئے۔ کچھ سیکھنے یا جاننے میں کبھی بھی شرمائیے مت ۔ کیونکہ شرمانے والا خود کو ان فوائد اور معلومات سے محروم کر رہا ہوتا ہے ۔ گزرے زمانے کی محرومیوں پر ٹھنڈی آہیں بھرنے کے بجائے آج کے موجودہ لمحے کی سہولتوں پر مسکرا کر شکرگزار ہونا ہی خوبی ہے۔