چینی کہاوت ہے کہ ”ہم مچھلی نہیں دیتے بلکہ مچھلی پکڑنے کا طریقہ بتا دیتے ہیں”یعنی کسی بھی غریب کی معاشی مدد اس طرح سے نہ کرو کہ اس کی عزت نفس مجروح ہو بلکہ ایسے معاونت کریں کہ غریب کی دل آزاری بھی نہ ہو اور وہ ایسے طریقہ کار بھی اپنا ئیںکہ جس سے غربت کی بیخ کنی بھی ہو جائے۔اگر ہم اسلام میں ریاست مدینہ کی بات کریں تو تاریخ اسلام شاہد ہے کہ حضرت محمدۖ نے مسلمانوں کے اندر ایک ایسا جذبہ بیدار کیاجس کی بنیاد احساس پر مبنی تھی،گویا احساس ہی ہمیں دوسروں کے کردار کو اعلیٰ ظرف بنانے میں ممدومعاون ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں احساس بیدار کر دیں کہ ان میں کیا پوشیدہ صلاحیتیں ہیں اور انہیں کیسے کارآمد لا یا جا سکتا ہے۔
غلاموں میں یہ احساس پیدا کر دیں کہ آپ بھی دیگر انسانوں کی طرح انسانیت کی معراج حاصل کر سکتے ہیں،لوگوں کو انسانوں،جانوروں،درختوں،عورتوں،بچوں اور بوڑھوں کے حقوق کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے حل کا جذبہ پیدا کرنے کا نام ہی دراصل انسانیت ہے۔اگر ہم یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہم سب کو ریاست مدینہ کی طرف لے جائے گی جس کی بنیاد احساس تھی۔اسی جذبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان نے اپنا ”احساس” پروگرام متعارف کروایا ہے جس کے مطابق غربا کو قرض حسنہ دیا جائے گا اور اس کو مستعد وباوقار بنانے کے لئے تمام وزارتوں کو اس میں شامل کیا جائے گا جس کا مقصد یہ ہوگا کہ ہر وزارت اپنے اپنے عملی میدان اور پیشے میں مستحق نوجوانوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ آپ میں وہ تمام صلاحیتیں ہیں جو کسی بھی قوم کو زمین سے اٹھا کر اوج ثریا پر لے جانے کا جذبہ رکھتی ہے۔یہی انفرادی احساس جب اجتماعی احساس میں تبدیل ہو جائے گا تو ریاست خوش حال،پر امن،فلاحی اور استحکام پذیر ہو جائے گی۔
اگر پاکستان یا دنیا کے ترقی پزیر ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ پراجیکٹ کوئی نیا نہیں ہے اس سے قبل پاکستان میں بھی کئی اطوار سے غربت مٹائو مہم کا آغاز کیا جا چکا ہے وہ الگ بات کہ ہوا کے دوش پہ بنائے جانے والے یہ تمام آشیانے ذرا سے آندھی کے آتے ہی خش و خاشاک کی طرح بہہ گئے ماسوا ایک پروگرام”اخوت”کے۔ اخوت کے بارے میں بات کرنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کے ”احساس”پروگرام کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ ایک ایسا پروگرام ہے کہ جس کے تحت ملک میں غربت کو کم سے کم سطح پر لائے جانے کی کوشش کی جائے گی اور اس مقصد کے لئے حکومت پاکستان نے 42ارب اور 65کروڑ روپے مختص کئے ہیں اس پروگرام پر عمل پیرائی کے لئے حکومت صرف پانچ ارب دے گی جبکہ ناقی 37ارب روپے مختلف سرکاری اداروں سے لئے جائیں گے،اس پروگرام کے تحت ہر ماہ اسی ہزار افراد کو تیس ہزار سے 75 ہزار روپے تک قرض حسنی دیا جائے گا۔اور یہ قرض حسن معمار، کارپینٹر، الیکٹریشن،ریڑھی بان اور ایسے ہی چھوٹی سطح پر کام کرنے والے بے روزگار نوجوانوں کو دیا جائے گا۔اس سلسلہ میں 500 ڈیجیٹل حب بنائے جائیں گے جو مختلف تحصیلوں اور گائوں میں جا کر اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔یہاں تک اخو ت کی بات ہے تو پچھلے سال جب ڈاکٹر امجد ثاقب جو کہ ”اخوت” کے روح رواں ہیں قطر کے دورہ پر تھے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا تھا کہ دراصل اخوت کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس پروگرام کے تحت دئے گئے قرض حسنہ کی واپسی کی شرح ننانوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
کیونکہ اخوت کی طرز پر ہی احساس کو بھی شروع کیا جارہا ہے تو میرے خیال میں احساس کی کامیابی کا دورومدار بھی اس بات پر ہوگا کہ حکومت وہ کیا اقدامات کرے گی کہ جس سے قرض کی واپسی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنایا جا سکے۔وگرنہ بے نظیر پروگرام یا دیگر پروگرام کی طرح اس کا مقصد بھی غربا کو بھکاری بنانا ہی ہوگا،روزگار کی فراہمی نہیں ہوگا جبکہ ہمیں اسلامی طرز حیات اور آقائے نامداررۖکی حیات طیبہ سے روشنی لیتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے انہیں باوقار روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
ایک بار ایک صحابی نے آپ ۖ کی بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ یارسول اللہۖ گھر میں فاقوں کی نوبت آنے کو ہے کچھ عطا کیجئے تو آپ ۖ نے جو مال ومتاع اس صحابی کے پاس تھا اس سے ایک کلہاڑی خرید کرکے اس کا دستہ اپنے مقدس ہاتھوں سے بنا کر اسے دیا کہ جائو اور جنگل میں جاکر لکڑیاں کاٹ کر اسے فروخت کر کے اپنی گزر واوقات کرو۔کچھ روز بعد صحابی دوبارہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ۖاب میرے پاس اتنی رقم ہے کہ اب میں کسی اور مستحق کی خدمت کر سکتا ہوں۔احساس کا مقصد اگر یہ ہوگا تو پھر کامیابی اس کے مقدر میں ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا،پاکستان میں غربت مٹا کر خوش حالی کے سفر کو اگر جاری رکھنا ہے تو پھر ہمیں یہ بھی احساس پیدا کرنا ہوگا کہ ہم اپنی محنت اور ہنر سے اپنے آج کو گزرے ہوئے کل سے بہتر کریں۔