امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کی سر زمین پر قدم رکھنے والے امریکا کے پہلے صدر بن چکے ہیں ۔ امریکا او ر شمالی کوریا کے درمیان سخت بیان بازی اور دھمکیوں نے عالمی امن کو خطرات سے دوچار کردیا تھا ۔ شمالی کوریا اور امریکا جس طرح آمنے سامنے آئے تھے اس وقت عالمی طور پر یہی تاثر دیا جاتاکہ کسی بھی وقت امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان غیر روایتی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ امریکا نے شمالی امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لئے تجارتی پابندیوں کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے تجارتی پابندیوں عاید کی۔ شاید یہ امریکا کی نئی اسٹریجی پالیسی بن چکی ہے کہ کسی بھی مخالف ملک کے خلاف جنگ سے قبل اقتصادی پابندیوں سے اپنی برتری قائم کی جائے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں رہی ہے اس وقت دنیا میں دو امور بڑی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں جس میں ہتھیاروں کی عالمی تجارت کے لئے حلیف ممالک کو غیر محفوظ ظاہر کرکے اربوں ڈالرز کا جنگی ساز و سامان فروخت کرنا ۔ یہ طریقہ کار بڑا تیر بہدف ثابت ہوا ہے اور عظیم مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی نہ رکنے والی دوڑ میں مزید تیزی آچکی ہے۔ اسی طرح دوسری طریقہ مخالف حکومتوں پر اقتصادی پابندیاں عاید کرکے اپنے مفادات کو حاصل کیا جانا ۔ امریکا نے شمالی کوریا کے ساتھ اسی طریق کو اپنایا اور مسلسل شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں عاید کرتا رہا ، لیکن شمالی کوریا پر امریکی کی جنگی و ایٹمی حملے کی دھمکی بھی کارگر نہیں ہوسکی یہاں تک کہ اس اعصابی جنگ میں شمالی کوریا کے ساتھ امریکا مذاکرات کی میز پر آگیا اور بالاآخر ایک تاریخ رقم ہوگئی اور صدر ٹرمپ شمالی کوریا میں آنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ۔ یہ عالمی امن کے لئے ایک موثر اور تاریخی قدم ہے جس کے مثبت اثرات سے خطے کا ایک حصہ ایٹمی جنگ کے کسی بھی امکان سے فی الوقت محفوظ ہوا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ”جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب بھی ایک بڑا قدم ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا”۔امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” ٹرمپ کے ساتھ شمالی کوریا میں اس مختصر ملاقات سے دو طرفہ تعلقات میں یقینی طور پر بہتری پیدا ہو گی۔ شمالی کوریائی لیڈر نے اس ملاقات کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ اس کے مستقبل میں کیے جانے والے اقدامات پر بھی بہترین اثرات مرتب ہوں گے”۔
امریکا نے اقتصادی جنگ کے اس حربے کو چین پر بھی آزمایا اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسری کی درآمدات پر بھاری ٹیرف عاید کئے۔ چین ایک اقتصادی سپر پاور بننے کی جانب روبہ گامزن ہے ۔ یہ امریکا کے لئے ناقابل برداشت ہے کہ چین عالمی تجارت اور اقتصادی سپرپاور بن جائے ۔ اس لئے امریکی صدر نے سب سے پہلے امریکا کے سلوگن و اپنے منشور کی وجہ سے چین پر تجارتی برآمدات پر پابندیاں عاید کرنا شروع کردی یہاں تک کہ چین نے بھی امریکا کو ترکی با ترکی جواب دیا ۔ امریکا کی مہنگی مصنوعات کی وجہ سے چین کو امریکا کے علاوہ یورپی ممالک اور دیگر خطوں میں رسائی کے وسیع مواقع حاصل ہیں ، اس لئے چین نے امریکا کے ساتھ تجارتی عام توازن پر برابری کی سطح پر مسابقت کی فضا میں کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا یہاں تک امریکا کی جانب سے جنگی دھمکی بھی دے ڈالی ۔ امریکا ، چین کے ساتھ تجارتی معاملات پر یکساں و برابری کی سطح پر تعلقات کا خواہاں ہے ۔ جی20کے اجلاس میں دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ملاقات و مذاکرات کے بعد امریکا اور چین کے درمیان بھی اقتصادی جنگ کے خاتمے کے لئے اچھی خبر عالمی توجہ کا مرکز بنی ۔ جس کے بعد اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی تجارتی چپلقش کا اگر خاتمہ ہوتا ہے تو امریکا کی ٹرمپ ڈاکٹرائن تبدیل ہوسکتی ہے اور عالمی بالادستی کے جنون میں کمی واقع ہوسکتی ہے ۔ جس سے کئی ایسے ممالک جو امریکا ،چین تجارتی جنگ کی وجہ سے پراکسی وار بن رہے تھے ان میں ٹھہرائو پیدا ہوسکتا ہے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ایک ڈیل پر اتفاق ظاہر کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین جاری تجارتی جنگ ختم ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا نے رپورٹ کیا ہے” کہ امریکا اور چین نے باہمی تجارتی مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کر لیا ہے” اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ” وہ چینی مصنوعات پر مزید اضافی محصولات عائد نہیں کریں گے”۔
عالمی میڈیا میں اسے ‘تجارتی جنگ’ میں ‘سیز فائر’ کا نام دیا جا رہا ہے۔امریکا نے ایران کے خلاف بھی اقتصادی پابندیوں میں مزید سختی لاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیوں کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ۔ اس حکم نامے میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای پر پابندیوں کا نفاذ بھی کیا گیا ہے۔صدر ٹرمپ نے ایران کی جانب سے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والی پالیسیوں کا ذمہ دار خامنہ ای کو قرار دیا۔ اوول آفس میں اس حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ” امریکا ایران پر دباؤ میں اضافہ کرتا رہے گا”۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ” ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر پائے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے بہتر ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا، تو اس کے خلاف پابندیاں فوری طور پر ختم بھی کی جا سکتی ہیں”۔ ایران و یرامریکا خمینی انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا کہ یہاں تک دونوں ممالک کے درمیان اس قدر کشیدہ تعلقات ہیں کہ جنگ ہونے میں چند منٹ تاخیر نہ کی جاتی تو اس وقت دنیا ایک نئی عالمی جنگ کا شکار ہوتا ۔ امریکی صدر نے ایران پر بھرپور دبائو کے لئے اقتصادی پابندیوں کا طریق کار استعمال کیا ہوا ہے یہاں تک کہ ایران کے حلیف ممالک بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے زد میں ہیں تاہم حال ہی میں عراق کے لئے امریکا نے پابندی نرم کی ۔ جس کی آڑ میں ایران نے تیل فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن امریکا نے ایرانی تیل کی فروخت کو روکنے کے لئے مشرق وسطی اور عظیم مشرق وسطی میں اپنے بحری بیڑے اور افواج میں اضافہ کردیا ہے۔
حال ہی میں امریکا ایف 22بھی جنگی طیارے بحرے بیڑے میں شامل کرکے ایران پر اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کردیا ہے۔ تاہم ایران نے یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران سے تیل خریدیں تاکہ ایران کو اقتصادی بحران سے نکالا جاسکے ، یورپی یونین نے امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کا ایک میکینزم تیار کیا ہے۔ اس طریقہ کار کو متعارف کرانے کے بعد یورپی ممالک ایران کے ساتھ تجارتی عمل جاری رکھ سکیں گے۔اس میکینزم کو انسٹیکس (NSTEX) کا نام دیا گیا ہے۔ انسٹیکس سے مراد ‘انسٹرومنٹ اِن سپورٹ آف ٹریڈ ایکسچینج’ ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت یورپی کمپنیاں سخت امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ کاروبار اور تجارت جاری رکھ سکیں گی۔ امریکی اثر رسوخ کی وجہ سے ایران سخت تنائو کا شکار ہے ۔ گو کہ دونوں ممالک جنگ نہیں چاہتے ، امریکا کی جنگ نہ کرنے کی وجہ ایک نئے عالمی محاذ سے بچنا ہے جبکہ ایران ابھی تک مشرق وسطی میں براہ راست جنگ سے بچتا رہا ہے ۔ عراق و ایران جنگ کے بعد ایران نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اپنی حمایت یافتہ جنگجو ملیشیائوں کو عراق ، شام ، لیبیا اور یمن میں مصروف رکھا ہے اس لئے امریکا کے ساتھ براہ راست جنگ سے بچنے کے لئے امریکی صدر کو بتایا جاچکا ہے کہ جہاں جہاں امریکی مفادات ہیں وہاں ایران امریکا کو نشانہ بنائے گا۔
امریکا نے بھارت پربھی اقصادی پابندیوں عائد کردی ہیں ۔ تجارتی عدم توازن کی وجہ سے امریکا نہیں چاہتا کہ دنیا بھر کے ممالک امریکی صنعتی مارکیٹوں سے فائدہ اٹھائیں لیکن امریکا کے لئے اپنی مارکیٹ کو مشکل بنا دیں ۔ اس لئے بھارت اور امریکا کے درمیان تمام تر اتحادی کردار کے باوجود بھارت سے امریکا کی جانب سے تجارتی عدم توازن کے سبب اقتصادی پابندیاں تنائو کا سبب بن رہی ہیں ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے تجارت کے شعبے میں ترجیحی ملک (جی پی ایس) کی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے۔امریکی صدر نے کانگریس کو ارسال کردہ ایک خط میں آگاہ کیا ہے، ”میں یہ قدم اس لیے اٹھا رہا ہوں کیونکہ امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نئی دہلی انتظامیہ نے واشنگٹن انتظامیہ کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ تک منصفانہ اور مناسب رسائی دے گی۔”
ٹرمپ کے اس خط کے بعد امریکا کے تجارت سے متعلق دفتر نے ایک بیان میں وضاحت پیش کی کہ واشنگٹن جی پی ایس کے تحت بھارت اور ترکی کو دی گئی ترجیحی حیثیت ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک اس حیثیت کے لیے معیارات پر پورا نہیں اترتے۔ بیان کے مطابق بھارت یہ یقین دہانی کرانے میں ناکام رہا ہے کہ وہ امریکا کو اپنی مارکیٹ تک رسائی دے گا۔ بھارت نے کئی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے امریکا کی تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے امریکا کو خطے میں روس ، چین اور ایران کے خلاف ایک ایسے اتحادی کی ضرورت ہے جو امریکی مفادات کا خیال رکھ سکے ۔ اس لئے اقتصادی پابندیوں سے بھارت کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہے ۔ امریکا کی جانب سے ترکی کو بھی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے ، جس کی بنیادی وجہ روس سے ائیر ڈیفنس سسٹم کی خریداری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن انقرہ کے خلاف متنوع قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر کا اپنے ترک ہم منصب سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ انقرہ روس کے ساتھ اسے دفاعی تجارتی سودے کو ہر حال میں منسوخ کرے۔ اقتصادی پابندیوں کی اس عالمی جنگ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خود انحصاری کی پالیسی اپنائے جائے تاکہ ممکنہ مشکلات سے بچ سکیں۔ امریکا کیوبا ، روس اور شام پر متعدد اقتصادی پابندیاں عاید کرچکا ہے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اقتصادی پابندیوں کو تحمل و باہمی رضا مندی سے عالمی مفاد میں حل کیا جائے۔