تہران (جیوڈیسک) ایران نے 2015ء میں چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بعض شرائط پر عمل درآمد ترک کر دیا ہے اور ان کی خلاف کرتے ہوئے یورینیم کو مقررہ سے زیادہ سطح تک افزودہ کرنا شروع کردیا ہے لیکن ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ساتھ مفاہمانہ بیان بھی جاری کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس جوہری سمجھوتے سے پہلوتہی پر مبنی جو بھی اقدامات کیے جارہے ہیں ، وہ مستقل نہیں ہیں اور انھیں واپس لیا جاسکتا ہے۔
جواد ظریف نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ ایران جوہری سمجھوتے کے پیرا 36 کے تحت دوسرے مرحلے میں اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے تلافی اقدامات کررہا ہے۔ہم اس سمجھوتے کی شرائط کے تحت قانونی اقدامات کو جاری رکھنے کا حق رکھتے ہیں تاکہ ہم امریکا کی اقتصادی دہشت گردی کےمقابلے میں اپنےمفادات کا تحفظ کرسکیں ۔اگر یورپی یونین کے رکن تین ممالک (برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ،ای 3) اپنے وعدوں کی پاسداری کریں تو ان تمام اقدامات کو واپس لیا جاسکتا ہے‘‘۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ایک اور ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ امریکا کے جوہری سمجھوتے سے انخلا کے بعد سے تینوں یورپی ممالک اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ان تینوں یورپی ممالک کو پیرا 36 کے تحت کم سے کم ایران کے اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے۔ای 3 کے پاس ایسا کوئی جواز یا بہانہ نہیں کہ وہ جوہری سمجھوتے کے تحفظ اور امریکا کے یک طرفہ اقدامات کے مقابلے کے لیے ایک پختہ سیاسی موقف سے گریز کریں‘‘۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا ا علان کردیا تھا اور اسی سال نومبر میں ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جن میں اس کی تیل کی برآمدات اور بنک کاری کے نظام کو ہدف بنایا گیا ہے۔
ان تعزیری اقدامات کے بعد سے امریکا کی ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو اہے اور حالیہ ہفتوں کے دوران میں تو ایک طرح سے خلیج میں جنگ کا ساماحول پیدا ہو گیا تھا مگر پھر صدر ٹرمپ نے مفاہمانہ بیانات جاری کرنا شروع کردیے اور انھوں نے کہا کہ وہ ایرانی نظام کے ساتھ کسی پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرا ت کے لیے تیار ہیں مگر ایران نے ان کی اس پیش کش کو ٹھکرا دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پہلے جوہری سمجھوتے میں واپس آئیں اور پھر مذاکرات کی بات کریں ۔