بلوچستان کی سیاست میں جمعیت علماء اسلام کا ہمیشہ اہم رول رہا ہے اور یہ صوبے کی سب سے بڑی سیاسی و مذہبی پارٹی ہے یہ الگ بات ہے کہ آج تک وہ اپنا وزیراعلی منتخب کروانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکی ہے اور کونسی قوتیں ہیں جو بکھرے ہوئے تنکوں سے عمارت کھڑی کرکے اسے” باپ” کانام دے کر پھر زمام قتدار تک حاصل کروالیتی ہیں باوجود اس کے کہ جمعیت علمائ اسلام کبھی حزب اقتدار کبھی اختلاف کا حصہ رہ کر عوامی مسائل تعمیر و ترقی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے ساتھ ساتھ آئین سازی میں اہم رول ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ بلوچستان جیسے قبائلی صوبہ جہاں اقوام کے درمیان قومیت ، لسانیت اور مذہبی منافرت کی عفریت ہمہ وقت موجود رہتی ہے ایسے ماحول میں جمعیت واحد پارٹی ہے جو ان تعصبات اور نفرتوں کی تپش کو کم یا ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہے ان کے دستور کے تحت ہر پانچ سال بعد یونٹ سے لے کر مرکز تک نئے امیر وجنرل سیکرٹری کا نئی رکن سازی کے بعد انتخاب کا انعقاد ہوتاہے بجا طور پر یہ جمہوری عمل پاکستان میں دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے مشعل راہ ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر نئے امراء نظماء کے انتخاب میں من پسند امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں ذیلی ضلعی صوبائی اور مرکزی کونسلر اتنے میچور ہوتے ہیں کہ کبھی کسی کو بلامقابلہ تک منتخب کرتے ہیں اور کبھی بہت سے امیدواروں کا مقابلہ کرواتے ہیں۔
جمعیت کے انتخابی نظام میں بتدریج مزید اصلاحات کا سلسلہ جاری ہونا چاہئیے گزشتہ دنوں پارٹی دستور کی روشنی میں پورے ملک کی طرح انٹرا پارٹی الیکشن زیر نگرانی مرکزی کنوئینر علامہ راشد محمود سومرو منعقد ہوا انتخابی نتائج کے مطابق اگلے پانچ سال کیلیے صوبہ بلوچستان کیلئے مولانا عبدالواسع نے 950 ووٹ لیکر امیر جبکہ مولانا سیدمحمودشاہ 1166 ووٹ لیکرجنرل سیکرٹری منتخب ہوئے دستور کے تحت 600 ارکان پر ایک فرد صوبائی مجلس عمومی کی نمائندگی کا مجاز ہوتاہے صوبائی الیکشن میں کل 14276 افراد شریک ہو مجلس عمومی کے 856200 افراد کی نمائندگی کرتے ہوانتخابات میں شریک ہوئیجس کیلئے باقاعدہ کاوئنٹرز قائم کیے گئے تھیانتخاب انتہائی محبت کی فضاء اور پرامن ماحول میں ہوا گزشتہ ادوار کے برعکس کارکنوں کی شکایات کا ممکن حدتک ازالہ کیا گیا انتخابی اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔بعض لوگوں نے انتخاب کو ملتوی کرنے کیلئے مختلف ہتکھنڈوں کا سہارا لیا جس سے مرکزی اور صوبائی کنونینئر نے اپنی حکمت سے ناکام بنادیا ۔اس بارجمعیت علمائاسلام میں صوبہ سے لے کر اضلاع اور یونٹوں کے انتخاب میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں آئندہ پانچ سال کیلئے بلوچستان کے مجلس عمومی یا جنرل کونسل کے اراکین نے صوبہ بلوچستان کے سنیئر ترین پارلیمنٹرین مولانا عبدالواسع کو امیر اور جمعیت علماء اسلام کے سابق صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا سید صدیق شاہ صاحب مرحوم کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی آغا سید محمود شاہ کو بھاری اکثریت سے جنرل سیکرٹری منتخب کرکے بڑی اور مثبت تبدیلی کا عندیہ دیا۔
مولانا عبدالواسع اچھے مزاج کے مالک ہیں نرمی بردباری اور برداشت کے حوالے سے اچھی شہرت کے حامل ہیں ،جذباتی اور انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ان کا موقف ہے کہ انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتا ناراض ساتھیوں کے گھر گھر جاکر انہیں منالوں گا اور مجھے امیر نہیں خادم سمجھے موصوف سالوں سے بلوچستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہے ہیں 1993 سے اب تک وہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں 2018 کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر قومی سیاست کا حصہ بن گئے بلوچستان اسمبلی میں سینئیر صوبائی وزیر اور قائد حزب اختلاف کی حیثیت بے شمار ترقیاتی کاموں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں موصوف محسن بلوچستان” کا لقب پا چکے ہیں انہوں نے دارالعلوم بلوچستان کیڈٹ کالجز سکولوں کی تعمیر توی وڑ ڈیم گوال سملزئی بجلی گریڈ علی خیل بجلی گریڈ بادینی کسٹم گیٹ وے اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بہت بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرکے ان کا مستقبل کو روشن کیا اور نومنتخب صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا آغا سید محمود شاہ کو والد صاحب کا نہ صرف منصب ملا بلکہ وہ سادہ مزاجی و انکساری میں بھی ان کا حقیقی جانشین ہیں خاندانی پس منظر کے باعث مخالفین بھی ان کا حد درجہ احترام کرتے ہیں وہ جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں میں سب کو یکساں طور پر قبول ہیں۔
رکن اسمبلی منتخب ہوتے ہی موصوف نے عوامی مسائل اجاگر کرنے شروع کئے ہیں تعلیم صحت اور روزگار کے مسائل پر ہمیشہ حکومت وقت سے سوال کرتے نظر آتے ہیں آغا محمود شاہ کا یہ مطالبہ کہ کراچی تا چمن یا ڑوب موٹروے بنایا جائے پورے بلوچستان کی آواز کے طور پر متعارف ہوا اور سوشل میڈیا پر عام ہواان دونوں حضرات کی جیت پر کارکنوں کی جانب سے جشن کا سماں تھا اور محبت واخوت کی فضاء قائم ہوئی جوکہ نیک شگون ہے عوام اور کارکنوں کی نظریں اب نئی جماعت پر مرکوز ہیں اللہ کرے کہ یہ سٹ آپ کامیابی و خوشحالی کا ذریعہ بنے۔اپنے اعزاز میں ضلعی جماعت کی طرف سے منعقدہ استقبالیہ تقریب سے نومنتخب صوبائی امیر ورکن قومی اسمبلی مولانا عبد الواسع نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ سب نیمجھ پراعتمادکیااس کوٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔
میں آپ سب کا امیر نہیں بلکہ خادم ہوں اور تمام اضلاع والے مجھے صوبائی امیر نہیں بلکہ اپنے عاملہ کا رکن سمجھ کر مجھے ہر قسم کی خدمت کا حکم کریں میں دن رات حاضر ہوں گا کیونکہ یہ جماعت ھم سب کی یکساں طور پر جماعت ہے اس کی ذمہ درای صرف صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا سید آغامحمود شاہ پر نہیں آتی اور نہ ہی ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبدالرحمان رفیق صاحب پر آتی ہے بلکہ ھم سب پر عائد ہوتی ہیاس کی ترقی کیلئیاوربہتر مستقبل کیلئے اپنے صلاحیتیں بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوگا جب تک ھم عملی کام نہ کریں ھم نہ عمل کرکے عملی طور پر دیکھانا ہوگا اور مجھے اسلئے امیر بنایا گیا کہ میں جماعت میں اتحاد واتفاق محبت و اخوت کی فضائ قائم کرسکوں اوراعلان کرتے ہوئے کہا درگزر کرتے ہوئے سب افرادکومعاف کرتا ہوں ،سب میرے بھائی ہیں ان سب کو میں اپنے ساتھ چلانا چاہتا ہوں کوئٹہ کے نومنتخب امیر مولانا عبدالرحمان رفیق نیخطاب میں کہا کہ یہ ملک پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد اعلائے کلم? اللہ کیلئے حاصل کیا گیا اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے اکابر نے بڑی قربانیاں دیں ہمیں یک جان ہوکر تمام تر اختلافات کو دور کر کے سربلندی کیلئے کام کرتے رہیں اور اپنی محنت جاری رکھے۔