اسلام آباد (جیوڈیسک) ملک بھر میں انسداد پولیو کے کارکنوں کی انتھک محنت سے یہ امید جاگی تھی کہ شاید پاکستان اس بیماری سے مکمل طور پر چھٹکارا پا سکے۔ لیکن اس سال کے اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ یہ ایک لمبی لڑائی ہے جسے جیتنے کے لیے پاکستان کو بھرپور محنت کرنا ہوگی۔
ڈان اخبار کے مطابق پیر کے روز چار مذید کیس سامنے آنے کے بعد یہ تعداد 45 تک پہنچ گئی ہے۔ اخبار کے مطابق پولیو سے متاثرہ بچوں کے تازہ کیس لاھور، جہلم، بنوں اور لکی مروت سے سامنے آئے۔ وفاقی حکومت میں انسداد پولیو سے متعلق وزیراعظم کے فوکل پرسن بابر بن عطا نے ان نئے کیسز کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان کے بعض علاقوں میں ویکسین کے معیار اور اس کے مؤثر ہونے پر بھی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ عالمی ماہرین کے مطابق، اس کی بڑی وجہ ملک میں صحت کے سرکاری نظام میں بنیادی خرابیاں ہیں۔
رواں برس اپریل میں خیبرپختونخوا میں سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیل گئی کہ پولیو ویکسین میں خرابی کی وجہ سے بچے بیمار پڑ رہے ہیں۔ ردعمل میں لوگ طیش میں آ گئے اور بعد ازاں پرتشدد واقعات میں تین پولیو ورکر ماردیے گئے۔ ماضی میں پاکستان کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو کے لیے کام کرنے والے کئی کارکنوں کو گولیاں مار کرقتل کیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور جنگ سے متاثرہ علاقوں میں پولیو کا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر رہا ہے۔ ان میں صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی شامل ہے۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد کئی برسوں تک انسداد پولیو کی ٹیموں کو افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں تک رسائی ہی نہیں تھی۔ سن 2014ء میں پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد وہاں سے لوگ ملک کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے تو حکام کو بچوں تک رسائی ملی لیکن ساتھ ہی پولیو وائرس پھیلنے کے خدشات نے بھی جنم لیا۔
پاکستان میں پولیو کے خلاف لڑائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بعض حلقوں کی طرف سے ویکسین کے خلاف غلط پراپیگنڈا رہا ہے، جس سے متاثر ہو کر پسماندہ علاقوں میں اکثر والدین اپنے بچوں کو یہ قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
رجعت پسند حلقے پولیو ویکسین کو مغربی دنیا کی سازش تصور کرتے ہیں، جس کا مقصد ان کے بقول مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق، پولیو ویکسین کا اس قسم کے مفروصات سے کوئی تعلق نہیں۔
پولیو ایک لا علاج بیماری ہے جس سے متاثرہ بچے زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کا واحد علاج بچوں کو حفاظتی ویکسین کے قطرے پلانا ہے۔
پاکستان، افغانستان اور نائجیریا اس وقت دنیا کے تین ایسے ممالک ہیں، جہاں پولیو وائرس کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہو سکا۔ بلکہ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ وہاں سے دیگر پڑوسی ممالک میں پھیل سکتا ہے۔