آسٹریلیا (جیوڈیسک) آسٹریلیا نے برسوں سے ویزہ کے منتظر تیس ہزار سیاسی پناہ گزینوں کی ویزہ کی درخواستیں جلد نمٹانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔
آسٹریلیا کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں حکومت کو اکتیس تجاویز کی فہرست دی تھیں، جس سے پناہ گزینوں کو درپیش مسائل میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ لیکن حکام نے ان مشوروں کو رد کر دیا ہے۔ ان پناہ گزینوں کی اکثریت آسٹریلیا میں رہتی ہے لیکن تقریباً 900 لوگ آسٹریلوی سرزمین سے باہر بحر الکاہل کے دو مختلف جزائر میں قائم حراستی مراکز میں قید ہیں۔
آسٹریلیا میں سن 2009 سے سن 2013 کے دوران دسیوں ہزار لوگوں نے کشتیوں کے ذریعے امیگریشن کی کوشش کی۔ ابتدائی برسوں میں آسٹریلوی ساحل پر اترنے والوں کو اس وقت تک ملک کے مختلف علاقوں میں رکھا جاتا جب تک ان کی پناہ کی درخوستوں زیر غور تھیں۔
لیکن جب آسٹریلیا آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا۔ آخرکار حکومت نے فیصلہ کیا کہ بغیر اجازت نئے آنے والوں کو ناؤرُو اور پاپوا نیوگنی کے جزیرے مانوس کے حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔
آسٹریلوی حکومت کی امیگریشن کنٹرول پالیسی کا یہ ایک متنازع فیصلہ تھا، جس پر اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے خاصی تنقید ہوئی۔
اسٹریلیا کے اندر بھی مختلف تنظیمیں اور سیاستدان بارہا حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ کیمپوں کے خراب حالات ایک انسانی چیلنج ہیں اوران کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
آسٹریلوی انسانی حقوق کے کمیشنر ایڈورڈ سینٹو کے مطابق ان کیمپوں میں برسوں سے غیریقینی سے دوچارافراد کی ذہنی حالت اور صحت مسلسل خراب ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ان مہاجرین میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے بھی کہا ہے کہ اس مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے ڈپٹی لیڈر رچرڈ مارلس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ اس کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے۔