دنیا میں بہت خوبصورت دیدہ زیب مقامات ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ جنت بہت ہی زیادہ خوشنما ہوگی۔ ایسے ہی کچھ خوبصورت مقامات ہمارے پیارے وطن پاکستان میں بھی ہے جن کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں کہیں جنت ہے تو وہ میرے وطن میں بھی ہے۔ راقم اپنے دوستوں شیر عالم، حسن زئی بھائی، ذاکر اور نجیب اللہ خان نیازی کے ساتھ پاکستان گھومنے کے غرض سے اور کراچی کی گرمی سے راہ فرارکے لیے کراچی سے خیبر پختون خوا روانہ ہوئے، روانگی کے بعد پہلا پڑاؤ ہمارا سکھر تھا جہاں رات ایک ہوٹل میں گزاری، صبح اٹھنے کے بعد سکھر خیر پور روڈ پر واقع ایک چھوٹے سے قبرستان میں گئے جہاں پر بتایا گیا کہ یہاں تین صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین مدفن ہیں۔ قبر شریف پر حاضری دی، حاضری و سلام کے بعد ڈیرہ غازی خان کے لیے سفر شروع ہوا جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ماموں زاد بھائی کے ہاں ایک رات گزاری، صبح مظفرگڑھ کے لیے روانہ ہوئے جہاں نجیب اللہ نیازی کے بھائی کا فارم ہاؤس ہے وہاں ایک رات گزارنے کے بعد اگلی رات میانوالی میں گزار کر صبح خیبر پختونخواکے لیے نکلے ہمارا خیبر پختونخواہ میں پہلا پڑاؤ وادی بموریت(وادی کافرستان جو وادی کیلاش کے نام سے معروف ہے تاہم کیلاش دراصل ان کے مذہب کانام ہے) تھا جہاں پہنچنے کے لیے ہم نے تیمرگرہ والا راستہ اختیار کیا جس پر آگے جاکر پاکستان کے سب سے بڑے ٹنل لواری ٹنل بھی آتا ہے۔
چکدرہ سے لواری ٹنل تک سڑک کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت نہر پنجگوڑہ بھی چلتی ہے، جو لواری ٹاپ کے پہاڑوں سے چکدرہ اور پھر دریائے سوات میں جا ملتی ہے۔ سڑک پر چلتے ہوئے ایک طرف بڑے بڑے پہاڑ اور دوسری طرف دریائے پنچگوڑہ اور اس سے اٹھنی والی ٹھنڈی ہواؤں سے سفر کا مزا دوبالا ہوتاجارہاتھا، ہم نے گاڑی کا اے سی بند کیا ہوا تھا اور قدرتی یخ ہوائوں کے مزے لے رہے تھے کہ نہ جانے کب شام ہوئی سے رات ہوئی، پتا ہی نہیں چلا ، رات اَپر دیر ہی کے علاقے اخاگرام میں ایک دوست کے گھر پر گزاری اور صبح پر اپنے روڈ پر نکل پڑے ، ضلع دیر ختم ہوتے ہی ضلع چترال شروع ہوتا ہے ، دیر اور چترال کوملانے کے لیے لواری ٹنل سب سے آسان راستہ ہے ، اس سے قبل جب یہ ٹنل نہیں بنا تھا تو صرف لواری کے پہاڑوں کو کراس کرنے کے لیے چار سے ساڑھے چار گھنٹے لگتے تھے ، اب ٹنل کی وجہ سے صرف بیس منٹ میں یہ سارا سفر تے ہوتا ہے ۔ ٹنل کو پار کرنے کے بعد ہمارے ساتھ ساتھ چلنے والا دریائے پنچگوڑہ بھی ختم ہوگیا اور آگے شروع ہوا دریائے کابل۔ سفر جاری تھا درویش نامی علاقہ جو ضلع چترال کا پہلا تحصیل ہے وہاں دوپہر کا کھانا کھا کر توڑا آرام کے بعد آگے چل پڑے، ابھی چترال پہنچنے کے لیے صرف 20کلو میٹر کاراستہ باقی تھا کہ ہم سفر نجیب اللہ نیازی نے گاڑی کا رخ دریائے کابل کی جانب کردیا، جہاں ایک بڑے پل کو پار کر کے ہم دوسری جانب گئے وہاں چیک پوسٹ پر انٹری کرائی اور یہیں سے شروع ہوا بمبوریت (کیلاش) کا سفر ، یہاں سے بہ راستہ” ایون ”اور” شیخ انند” سے ہوتے ہوئے ہم وادی بمبوریت پہنچ گئے ، وادی بمبوریت (کیلاش) لواری ٹنل سے 67کلومیٹر اور ایون سے 20کلومیٹر دور ہے ، ایون سے بمبوریت(کیلاش) جانے کے لیے ایک کچی سڑک ہے، جس کے ایک طرف یخ و ٹھنڈے پانی کا ایک بڑا سہ نہر ہے تو دوسری طرف خطرناک پہاڑیاںاور اس سے بہنے والی آبشاریں جس کو دیکھ کر کمزور دل والے کلمہ طیبہ کا ورد ہی کرتا رہے گا۔
وادی بمبوریت (کیلاش) پہنچ کر ہم کافی تھک گئے تھے موسم بھی کافی سرد تھا درجہ حرارت 7 ڈگری بتا رہا تھا ، رات ایک پرسکون ہوٹل کے بڑے بڑے کمبلوں میں گزارنے کے بعد صبح اُٹھے تو ٹھنڈ کی وجہ سے منہ ہاتھ دھونے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ، تاہم چار و ناچار نہانے میں کامیاب ہوگئے اور ناشتہ کے بعد مقامی گائڈ کو ساتھ لیکروادی بمبوریت اور کیلاشیوں کے ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے نکل گئے ، ہمارے ساتھ ہوٹل میں ٹہرے کراچی کے چار اور دوست بھی تھے ، سب سے پہلے وادی بمبوریت کے گائوں ” ہنیش ”گئے جو ایک پرسکون اور قدرتی حسن سے مالامال گائوں تھا ، اس کی خوبصورتی میں لکڑیوں سے بنے ہوئے گھروں نے چار چاند لگا دئے تھے ساتھ ہی ساتھ شہتوت ، خوبانیوں اور آخروٹوں کے درختوں پر پرندوں کی جھرمٹ اور ان کی آوازوں نے ماحول میںایک عجیب سا سماںپیدا کیا جو زندگی بھر نا بھول پائیں گے، اس کے بعد مقامی میوزم پر” دراز گھڑی” اور آخر میں” کراکار ”جہاں پر کیلاشیوں کا قدیم قبرستان ہے ، جس ایک طرف اونچے اونچے پہاڑ اور دوسری جانب کافرستان اور نورستان(افغانستان) کے پہاڑوں کے گلیشئروں سے نکلنے والے یخ پانی کی نہر کا شور جو کانوں میں عجیب سا رس گھولتی ہے۔ راہنما و مقامی افراد سے کیلاشیوں کی ثقافت اور دیگر حالات پر کافی گفتگو ہوئی جو پھر کبھی کسی اور موقع پر تحریر کروں گا، کافی طویل پیدل سفر کے بعد تھکن سے چھور ہم تمام دوست جب ہوٹل لوٹے تو بھوک نے ستانا شروع کردیا ، ہوٹل والے سے اجازت لی اور اپنی مدد آپ ہی بریانی پکانے لگے تھوڑی محنت کے بعد بھائی شیر عالم نے نہایت ہی عمدہ بریانی تیار کی جو ہم سب نے بڑے مزے سے کھا ئی، تھکن سے چھور تمام دوست نرم و گرم بستر پر ایسے سوئے کہ پتا ہی نہیں چلا کہ کب صبح ہوئی اور کب ہماری تھکن اتری ، ایک دن اور دوراتوں کے قیام کے بعد واپسی سوات کی جانب سفر شروع ہوا جو بڑا پرسکون تھا کیوں کے تھکن جو ختم ہوئی تھی۔
صبح آٹھ بجے وادی بمبوریت (کیلاش)سے نکلے اور آہستہ آہستہ سفر کرتے ہوئے رات کو سوات پہنچے ، سوات میں ہم تمام دوستوں کے رشتہ دار یا دوست کثیر تعداد میں موجود تھے کسی کو تنگ نہ کرنے کے لیے ہم نے ہوٹل میں ہی قیام کا ارادہ کیا اور رات ایک ہوٹل میں گزاری ، صبح سوات کے صرف ایک سیاحتی مقام مرغزار کی جانب جانے کا پروگرام بنا ، جہاں والی سوات کی عدالت لگا کرتی تھی ، وہاں پہنچ کر کچھ عکس بندیاں کی اور کچھ قدرت کے حسین شاہکاروں کے نظارے کیے ، اس کے بعد ضلع شانگلہ میں میرے گائوں کابلگرام کی جانب نکل پڑے ، راستے میں’ یخ تنگی’ نام سیاحتی مقام پر کچھ دیر قیام کیا ، وہاں پر پہاڑں سے نکلے سردپانی کے چشموںکا پانی پیااور فروٹ کھا کر آگے کی جانب چل پڑے ، شانگلہ بھی قدرتی حسن سے مالامال ہے اُونچے اُونچے پہاڑ اور اس سے بہنے والی آبشاریں ،دیکھنے والا قدرت کے سحر میں کھو سا جاتا ہے ۔
ساتگھنٹے طویل سفر کے بعد رات گئے ہمارے گائوں کابلگرام پہنچ گئیاور کھا نا کھاکر سو گئے، صبح اُٹھ کر اخون سالاخ بابا کے مزار اور اس سے متصل ایک خوبصورت نہر پہنچے کچھ وقت اس خوبصورت مقام پر گزارنے کے بعد واپس گائوں آئے رات کو ایک قریبی رشتہ دار کا اچانک انتقال ہوا تو مجھے ایک رات مزید قیام کرنا پڑا اور دوستوں کو ضلع تورغر گائوں کنار کے جانب روانہ کیا ، یہ گائوں ہمارے دوست شیر عالم حسن زئی کا ہے ، اگلے روز میں بھی ان کے پاس جا پہنچا ایک رات مزید قیام کرنا پڑا کنار میں ، کنار دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ایک خوبصورت گائوں ہے ،جہاں کا موسم گرمی میں گرم ہی رہتا ہے اور سردی بھی کمال کی ہوتی ہے ۔ کنار سے پنجہ گلی نامی ایک سیاحتی مقام پر گئے جو سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے جہاں سے ایک طرف اوگئی اور مانسہرہ اور دوسری طرف تور غر اور شانگلہ کے پہاڑوں کے حسین نظارے کیئے جاسکتے ہیں۔پینجہ گلی ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے اُنچے اُنچے درختوں ”دیودار، منگزئی، اچر، کچر، پیوچ اور کانڑ ”کے جنگلات اور گرمی میں ٹھنڈ ی ہوائیں سیاح کو مسحور کن احساس دلاتی ہیں۔
پینجہ گلی پر ہی ہمارا خیبر پختون خواہکا سفراختتام پزیر ہوا، اس کے بعد اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے ،وہاں ایک رات کے قیام اگلے ہی روز پھر میانوالی ، جہاں پھر ایک رات گزری اس کے بعد مظفرگڑھ اور پھر کراچی ، سفر کا خلاصہ یہ نکلا کہ ہم نے دنیا میں جنت دیکھی اور ہاں دیکھی وہ خوبصورت آسمان کو چھوتے پہاڑ، سرسبز وادیاں، بہتی ندیاں اور خوبصورت جھیلیں بڑی بڑی آبشاریں یہیں سب ہو گا جنت میں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد بس میں یہیں کہتا ہوں کہ” جنت نظیر ہے میرا وطن ” ۔ اللہ شاد وآباد رکھے میرے وطن کو (آمین)