اللہ تعالیٰ کی بھی نجانے کیا رضا ہے جن کو عذابِ آگہی دیتا ہےـ پھر انہیں ہی بار بار دنیا کی بے حسی اور بے بسوں کی لاچاری کے مناظر دوسروں سے قدرے زیادہ دکھاتا ہےـ ایک طرف تو بربریت کی انتہاء کرتے ہوئے معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑاتے ہوا سفاک ظالم اسرائیل ظلم کی نئی داستاں رقم کر رہا ہےـ بچے تو سب کیلیۓ فرشتوں جیسے ہیں نورانی چہروں والے کہیں بغیر سر کے اور کہیں بغیر ٹانگوں کے ادھورے لاشے بین کرتے ہوئے ہمیں جھنجھوڑ رہے ہیں ـ دنیا کی بے حسی اور نفسا نفسی کا عالم یہ ہے کہ ہر واقعے سے لاعلم ہنستے مسکراتے معمولاتِ زندگی ویسے ہی رواں دواں رکھے ہوئے ہیں جیسے عام ماحول میں رکھتے ہیںـ اس سے بڑی قیامت کیا ہوگی کہ ایک امت ایک اسلام اور وہ قیدِ تنہائی کا شکار دکھائی دیتے ہیںـ
یہی آج ہوا فیس بک پے ایک مختصر سی وڈیو دیکھی اور انگشتِ بدنداں رہ گئی ـ ذرا ذہن کو ہر سوچ سے خلای کیجیۓ اور تصور کیجیۓ جو میں تحریر کرنے جا رہی ہوں ـ جگرافک چینل کی ایک چھوٹی سی وڈیو کلپ تھی ـ اس وڈیو کلپ میں دکھایا جا رہا تھا کہ درجنوں گائے اکٹھی گھاس چر رہی ہیں ـ ان میں سے ایک گائے کا نوزائیدہ بچھڑا دکھایا گیاـ جو شائد کچھ گھنٹے پیشتر پیدا ہوا ـ اس سے ٹھیک سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھاـ بار بار کوشش کرتا کہ اپنے پاؤں پے کھڑا ہو لیکن نقاہت یا ناتجربہ کاری کے باعث گر جاتا ـ بلآخر وہ اپنی ناتواں ٹانگوں پے کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیاـ گائے اور ان کے چھوٹے بچے ان کے ساتھ آگے پیچھے شریفانہ انداز میں خاموشی سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے جا رہے تھےـ لیکن یہ معصوم ننھا بچہ بار بار گر رہا تھاـ
اسی اثناء میں اچانک ایک جانب سے جنگل کا باشاہ سیر نمودار ہوتا ہے ـ آن کی آن میں غول کا غول بھاگ کر نجانے کہاں گرد میں گم ہو جاتا ہے ـ جان کا خوف اتنا حاوی ہے کہ بھاری بھرکم جسم کی مالک یہ جنگلی گائے بھی سرپٹ دوڑیں ـ اس بچھڑے کی ماں نے پہلے تو بیقرارہوکے کچھ چکر کاٹے لیکن آخر کار وہ سمجھ گئی کہ یہ بچہ ابھی چلنے لائق نہیں ہے اور وہ اسے بچا نہیں سکتی تو وہ بھی بھاگ گئیـ شیر نپے تلے قدموں سے اپنے شکار کی جانب لپکا آج نہ تو اسے گھات لگانی پڑی نہ دور تک برق رفتار جانور کا پیچھا کرتے ہوئے ہانپنا پڑا آج تو کمسن کمزور نوزائیدہ شکار خود بخود اس کا منتظر تھاـ
احساس ہم نے انسانوں میں ختم ہو تے دیکھا کہ کسی کمزور کی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لفظ غیرت کو ہم نجانے کہاں چھپا دیتے ہیں ـ حلال حرام سب جائز کر لیا آج کے اس مہذب دور میں ـ سامنے کمزور ہے تو مقدور بھر فائدہ حاصل کرنا کچھ کمزور ذہن اپنا حق سمجھتے ہیں ـ میں اسی سفاک معاشرے کی عادی ہوں ـ سانس روکے میں دم سادھے دل ہی دل میں اس معصوم کی زندگی کی دعا کرنے لگی کہ ایک طرف طاقتور درندہ ہے جس اس کو منٹ بھر میں چٹ کر جائے گا دوسری طرف چھوٹا سا بچہ جو اپنی حفاظت سے غافل اور قاصر ـ پھر آنکھوں نے عجیب منظر دیکھاـ آج کے حکمرانوں کی طرح بے حسی نہیں دیکھی ـ جنگل کے بادشاہ نے ثابت کیا کہ اسکو حق ہے بادشاہ کہلانے کا کہ اسکی غیرت میں ابھی مردار کھانا اسکی سرشت میں شامل نہیں ہےـ
اس نے بچے کو سونگھا اور سمجھ گیا کہ اسکی غیرت اس کی شان کے منافی ہے کہ وہ جنگل کا بادشاہ ہو کر ایسے بے ضرر جانور کا شکار کرے جو بچا نہیں سکتا خود کو ـ اس کے بعد حیرت انگیز منظر تھاـ نحیف و ناتواں بچھڑا ماں کی نرم گود کا متلاشی تھا جو اس سفاک درندے کی آمد سے اس سے دور ہو گئی تھیـ وہ اس سے لاد کر رہا تھا اس کے ساتھ ویسے ہی بیٹھ رہا تھاـ اور جنگل کا بادشاہ حریص سیاسی رہنما کی طرح بھوک مٹانے کیلیۓ کچھ بھی کھانے پے تیار نہیں ہوا نہ ہی غاصب اسرائیل کی طرح اس نے ننھے منے بچے کے خون اور گوشت سے اپنی بھوک مٹائیـ بلکہ اس نے ناتواں کی ناتوانی کو محسوس کیا اور اسے تحفظ دیاـ اس کے بعد اندھیرا چھانے لگا تو شائد شیر اپنے شکار کیلیۓ جبگل میں چلا گیاـ اگلا منظر بڑا خوبصورت تھاـ
سورج کا اجالا پھیلتا ہے اور گائے غول کے غول اپنی مخصوص جگہہ پے پیٹ کی بھوک مٹانے آ رہی تھیںـ ایک بیقرار ماں تھیـ جو کچھ آگے آگے تھیـ ان کے آنے کا شور سن کر زندگی جاگتی ہے اور وہی بچھڑا ماں کی خوشبو کو محسوس کر کے اس کی جانب لپکتا ہےـ ماں کے ساتھ کیسے لپٹتا ہے اور کیسے سکون پاتا ہےـ یہ احساس صرف والدین اور حساس لوگ محسوس کر سکتے ہیـ کاش یہ وڈیو ان اسرائیلی درندوں کو بھی کوئی دکھا دے کہ بچوں پے ظلم تو جانور بھی نہیں کرتےـ سفاک دردندے بھی رحم کھا لیتےـ تم کیا ہو؟ درندوں سے بھی بد تر؟