جنگ سے قبل سامان حرب اور زاد فی سبیل اللہ جمع کیا جا رہا ہے ہر صحابی کی کوشش ہے کہ بڑھ چڑھ کر اس کارِخیر میں شمولیت فرما کر قربت الٰہی اور دربار رسالت ۖ کا قرب اپنے مقدر کا حصہ بنا لیا جائے۔یہ وہی جنگ ہے کہ جس میں یار غار حضرت ابو بکر صدیق اپنے گھر کا سارا مال حکم رسول اللہ ۖ سے اٹھا لائے تھے،جس پر رسول اکرم ۖ،خانوادہ ابو بکر اور تاریخ عالم اسلام سب کے سب فخر و انبساط سے شاداں و فرحاں ہیں،اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نگاہ اقدس سے کیسے کیسے پروانے ،عاشقان اور سخی پیدا ہوئے کہ بقول احسان دانش
وہیں وہیں سحر ہوئی جہاں جہاں نظر پڑی
اتنے میں ایک صحابی اپنی بساط کے مطابق کجھوروں کی ایک پوٹلی سامان حرب کے لئے لاتا ہے مگر سامان اتنا ڈھیر دیکھ کر وہ ذرا سا گھبرا جاتے ہیں کہ اتنے زادِ جنگ کے سامنے میری ایک کھجور پوٹلی کی کیا اہمیت،یہ سوچتے ہی وہ اپنی پوٹلی کو اپنے پیچھے چھپا لیتے ہیں ایسے میں نگاہ مقدس اٹھتی ہے اور اس صحابی کو پاس بلا کر پوچھا جاتا ہے کہ کیا لائے ہو تو صحابی اپنے ہاتھ میں پکڑی مٹھی بھر کجھور بارگاہ رسالت میں پیش کر دیتے ہیں۔سبحان اللہ کیا شان ہے نبی آخرالزمان کی کہ صحابی کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے حکم جاری کیا جاتا ہے کہ ان کھجوروں کو سامان کے پورے ڈھیر پر بکھیر دیا جائے تاکہ صحابی کے دل میں اس سامان کی قدر و منزلت پیدا ہو سکے۔گویا اشیا وخدمات کی تعداد و مقدار نہیں بلکہ دینے والے کی نیت،خلوص،ایمانداری،جذبہ ایمانی اور بساط سے بڑھ کر دینے والے عمل کو محفل ِ خداوندی میں پہاڑوں کے سے اجر کا باعث بن جاتے ہیں۔کیونکہ اسلام نے دینے والے ہاتھ کو لینے والے ہاتھ سے بہتر قرار دیا ہے۔
اب بات کرتے ہین حالیہ حکومت ،اس کی حکمت عملی ،پالیسی سازی،سیاست،کردار اور عزائم کی۔موجودہ حکومت کے بارے میں حزب اختلاف کے ایوانوں میں یہ صدائے بازگشت ایک سال سے گونج رہی ہے کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے،انہیں سیاست نہیں کرنا آتی ،یہ ناتجربہ کار ہیں،حکومت امریکہ کے اشاروں پر ناچ رہی ہے،ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔چلئے مان لیا یہ سب افسانے نہیں حقیقت ہے،تو کیا یہ ملک عمران خان کا ہے؟کیا اس ملک کا نظام عمران خان نے بنایا ہے،کیا اس ملک کی عدالتوں میں پیش کردہ مقدمات موجودہ حکومت نے دائر کئے تھے،کیا عدالتیں سیاسی اثر رسوخ کے زیر اثر اپنے فرائض سر انجام دے رہیں ہے،کیا غیر ملکی امداد وزیر اعظم اپنے اکائونٹ میں جمع کرو ارہا ہے،کیا یہ ملک آپ کا نہیں ہے،آئے روز عوام کے استحصال۔مہنگائی،ٹیکس اور عوامی مینڈیٹ کے چوری کا بہانہ بنا کر ہڑتال،سرکاری املاک کا ضیاع،ٹریفک معطلی،منفی پراپیگنڈہ اور مبنی بر انتشار بیانات سے ملکی معیشت میں عدم استحکام پیدا کرنا اور حکومتی معاملات میں ٹانگیں اڑانا کیا یہ سب ملکی سلامتی و استحکام کاباعث بن رہے ہیں؟
جمہوری روایات اور اخلاقی رویوں کا درس کیا دوسروں کے لئے ہی ہوتا ہے۔کیا یہ سب میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والی بات نہیں ہو جاتی۔جناب ملک جتنا وزیر اعظم کا ہے اتنا ہی عوام کا بھی ہے اور ہم سب کا بھی اور آپ کا بھی ہے۔اگر ایسا ہے ت پھر ہم سب کو اپنی اپنی انا اور ”میں” کے حصاروں کو توڑ کر اتحاد و یک جہتی کی زنجیر سے پابجولا ہو کر ملکی ترقی کی راہ کا مسافر ہو جانا چاہئے ،کہ موج بڑھے یا آندھی آئے بس دیا جلائے رکھنا ہے۔اور اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔وہ کردار کیا ہے؟ جمہوری رویوں کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت کوپانچ سال کا عرصہ پورا کرنے دیا جائے۔
اپنے حصہ کا ٹیکس ایمانداری سے ادا کر نا۔گلی محلہ اور نظام سیوریج کو خیال رکھتے ہوئے اپنے علاقہ کو صاف ستھرا رکھنا۔انفرادی اصلاح سے معاشرتی اصلاح اور فلاح سے ملک کو مثالی بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا۔ذمہ داریوں،فرائض اور پیشہ ورانہ فرائض کی بجا آوری میں کوئی کمی و کوتاہی نہ برتنا۔خوامخواہ کے ہجوم سے تماشہ گاہ بننے کی بجائے ڈسپلن قوم بن کر۔سچ بول کر صداقت،شجاعت اور عدالت کا بول بالا کر کے،یوٹیلٹی بلز کو بر وقت ادا کرکے،کرپشن چوری اور چور بازاری سے اجتناب سے،اشیائے خورد ونوش کو ملاوٹ سے صاف رکھ کر ہم اپنے ملک اور وزیر اعظم کی آواز میں آواز ملا کر ہی خدمت کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
ہم سے جتنا ہو سکے اپنے حصے کی شمع روشن کر کے حالیہ حکومت کا ساتھ دے کر اس ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ہمیں اپنے حصہ کی قندیل درخشاں کر کے ملک کے کونے کونے کو مینارہ نوربنانا ہے جوآنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکے۔ہم سب اپنے فرائض منصبی کو ایمانداری سے ادا کر کے ہی عمران خان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔