سیاحتی مقتل

Tourism

Tourism

تحریر : شاہ بانو میر

حکمت وقت کو اس وقت پاکستان کو
معاشی کامیابی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہے
اور
وہ رقم مسلسل حزب اختلاف کو غضب کا نشانہ بنا کر
حاصل نہیں ہو سکتی
اس کے لئے عملی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی
عملی تدابیر میں سر فہرست
ملک کے شمالی علاقہ جات ہیں
جن کے حسن کو دنیا بھر میں اجاگر کر کے
پاکستان کی کھوئی ہوئی سیاحتی رونقیں
بحال کرنے کی بہترین کوشش کی گئی
اس کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے
طویل لائحہ عمل طے کیا گیا
پوری دنیا میں پاکستانی سفارتخانے متحرک کئے گئے
بڑے بڑے پروگرامز میں ٹریولنگ ایجنٹس کے ساتھ رابطے
قائم کر کے انہیں
پاکستان کے جنت نظیر علاقوں کے حسن سے آگاہ کیا گیا
وڈیوز آڈیوز کے ذریعے
تمام تفریحی مقامات کو پُر اثر انداز سے اجاگر کیا گیا
خاص طور سے کافرستان کی مخصوص ثقافت
جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ
دنیا بھر سے الگ شناخت رکھتا ہے
اس کا مثبت اور زبردست نتیجہ ہم سب نے دیکھا
کہ
پاکستان میں سونی وادیوں کا خزاں رسیدہ تنہا وجود
اس بار سیاحوں کی آمد سے جیسے بہار کا سماں پیش کر رہا ہو
پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کو
اپنی جانب متوجہ کرنے میں یقینی طور پر کامیاب ہو گیا
لیکن
ہوا کیا؟
سیاحت نے قاتلانہ رنگ اختیار کیا
سیاحت کرتے ہوئے یہ بے ضرر لوگ اس وقت خوفزدہ ہو گئے
جب
میڈیا پر پاکستان میں ہوئے اوپر نیچے حادثات ہوتے دیکھے
یورپ ہو یا دیگر سیاحتی ممالک
اپنے یادگار مقامات پر سہولیات کو بین القوامی معیار دے کر
سیاحوں کے دل جیتتے ہیں
جبکہ
یہاں پاکستان میں دعوت عام تو دی گئی
لیکن
کمزور معیشت نے اپنی مدد آپ کا
اصول اپنا کر خاموشی اختیار کر لی
حادثات کا قدرتی یا انتظامی انداز سے ہونا
اتنا خطرناک نہیں تھا
جتنا حادثات پر امدادی ٹیموں کا بروقت نہ پہنچنا تھا
پاکستان کے عوام کئی دہائیوں سے
دہشت گردی کی جھلستی آگ میں
جل جل کر سکت جاں ہو چکے ہیں
لیکن
اعلیٰ ترین سہولیات سے مزین زندگی گزارنے والے
آرامدہ گھروں اور تفریح گاہوں کے عادی
یہ سیاح
اپنی حکومت کی مہربانی اور ہمدردی کے عادی تھے
وہ موجودہ حکومت کی اس سرد مہری کا
تصور بھی نہیں کر سکتے تھے
میں سمجھتی ہوں
کہ
ان علاقوں میں ہوئی دہشت گردی سے
ملک کو اتنا نقصان نہیں پہنچا
جتنا موجودہ حادثات میں بروقت مدد کی عدم دستیابی سے
سیاحت کو پہنچا ہے
زندگی کی تھکا دینے والی دوڑ سے نکل کر
سکون کی چند گھڑیاں حاصل کرنے کی قیمت
موت کسے قبول ہو سکتی ہے ؟
جبکہ
انتظامات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا
حکومت وقت کی ذمہ داری تھی
جس کو نبھانے میں وہ کلی طور پر ناکام رہی ہے
ان جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا
اگر
حکومت وقت سیاحت کو فروغ دیتے ہوئے
ایک نظر ان مقامات پر موجود موسمی علاقائی خطرے کو بھانپ کر
مون سون کے مہینوں میں امدادی ٹیمیں متعین کرتی
اس میں قصور کس کا ہے؟
پاکستان کی انتظامیہ کا ہے
جس نے ان سیاحتی مقامات پر حفاظتی اداروں کو قائم نہیں کیا
سہولیات ناکافی ہیں
ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے بر وقت
کوئی ٹیم متاثرہ شہر یا جگہہ پر موجود نہیں ہے
پٹرایٹا کا سانحہ ہو
جس میں سیاح طویل وقت کیلئے محصور رہے
یا پھر
گلیشئیر گرنے کا یا پھر لینڈ سلائڈنگ کا
یہ واقعات قدرتی نوعیت کے ہیں
جو
اس علاقے میں سال کے بارہ مہینوں میں جاری رہتے ہیں
پہلے
مصائب میں مقامی لوگ مبتلا تھے
لہٰذا
کمزور معاشی حیثیت کے حامل لوگوں کے مرنے کو اہمیت نہیں دی گئی
نہ ہی ان کے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں
ان حادثات کو قدرتی امر سمجھ کر صبر کرنے سے
یہ منظر عام ہر نہیں پائے گئے
مگر
اب بیرون ملک مقیم دولتمند لوگ پاکستان کے مہمان بن رہے ہیں
لہٰذا
میڈیا بول اٹھا ہے
اور
اخبارات بھی نوحہ کناں ہیں
پاکستان اور اس کے مقامی لوگ نجانے حکومت کیلئے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟
نہ ان کی رائے کی اہمیت ہے
اور
نہ ہی ان کی جان کی
اہمیت ہے تو بڑے ممالک کے
قیمتی شہریوں کی جان کی
جنہیں اگر دوران سیاحت کچھ ہوتا ہے تو
پاکستان کی خیر نہیں
وہ لوگ خطیر رقم خرچ کر کے پاکستان سیاحت کیلئے آئے تھے
اور
یہاں کے ناکافی انتظامات نے انہیں مایوس کیا
عمران خان
آپ کی جان کو خطرہ ہے ایجنسیز بتاتی ہیں
آپ گاڑی چھوڑ ہیلی کاپٹر پر پرواز بھرتے ہیں
وزیر اعظم ہاؤس میں سازشیوں کا مخبروں کا خطرہ
کم کرنے کے لئے
بنی گالہ کو مرکز بناتے ہیں
ذرا
اس غریب عوام کو بھی اہمیت دیجیۓ
ان کی جانوں کا بھی سوچیں
اور
بین القوامی سیاحوں کا بھی
آپ نے مصنوعی کاغذی کاروائی کر کے انہیں مدعو کر لیا
اور
سہولیات دینا بھول گئے
کیونکہ
ہمیشہ کی طرح آپکی سوچ یہ ہے
کہ
وہ آئیں
علاقوں کا دورہ کریں
اور
واپسی پر ہوٹلز
اور
دیگر پکنک پوائنٹس بنانے پر آمادگی ظاہر کریں
کاروبار پیسہ جان
ترجیح کیا ہے؟
انسانی جان سب سے زیادہ قیمتی ہے
اور
آپ اس احساس سے ہی نا آشنا ہیں
وزیرا عظم صاحب کبھی تو ہوم ورک پورا کریں
پچھلے سال اور اس سال کی ہلاکتوں کی تعداد
سوچیں تو سہی
آپکی ادھوری سیاحتی سوچ کتنے گھر اجاڑ گئی
کب تک آپ اسی غیر ذمہ داری کے ساتھ
اعلانات فرماتے رہیں گے
اور
لوگ جان گنواتے رہیں گے
آپ کے ملک کے دو سال ہی بین القوامی طور پر
آپکے ملک کو”” ناکام سیاحتی مرکز””
قرار دینے کے لئے کافی ہیں
جان صرف آپ کی قیمتی نہیں ہے
جس کی حفاظت کی جا رہی ہے
ہر انسان جو
اللہ کا بندہ ہے ٌ
وہ قیمتی ہے
سوچیں
کون ذمہ دار ہے اس
سیاحتی مقتل
کا
جو حکومت وقت کی
دعوت دیے جانے سے قتل ہوئے
خُدارا
پہلے کام کو مکمل محفوظ بنا کر خود جا کر
سہولیات کا اندازہ کر لیا کریں
یا
حکومت وقت کمیٹیاں کمیٹیاں تو ویسے ہی کھیلتی ہے
جانوں کی حفاظت کے لئے سیاحتی مقامات کے معیار کو
معیاری قرار دینے کے لیے بھی
مزید
ایک کمیٹی اور بنا دیتے
کم سے کم جانیں تو بچا لیتے
گھروں سے سیر سپاٹے کیلئے قافلے شوق سے نکلتے ہیں
کہ
وہ اپنے وزیر اعظم کے کہنے پر ملک میں سیاحت کو فروغ دیں گے
ملک کے اس حسین گوشے کو بھی دیکھیں گے
واپسی پر عام اندازہ ہے
کہ
ماتم کی نئی سیاحتی صدائیں سنائی دے رہی ہیں
ان جانوں کو بچایا جا سکتا تھا
اگر
حکمران کو کام مکمل اور ذمہ داری سے کرنے کی عادت ہوتی
سیاست کی طرح سیاحت میں بھی شور مچا کر
کرنے کی یہ کوشش قابل مذمت ہے
خطرناک علاقوں کی طرف بغیر حفاظتی اقدامات کے
لوگوں کو اکسانے کی ترغیب آپ نے دی ؟
سادہ لوح عوام نے بغیر سوچے سمجھے ہمیشہ کی طرح
آپکی پکار پر لبیک کہا
اور
جان سے گئے
ایک کمیٹی بننی چاہیے
نتائج کے سامنے آنے کے لئے
قدرتی آفت کہنا ناکافی ہے
دو روز تک لینڈ سلائیڈنگ میں پھنسنے والے
کیا دوبارہ وہاں جائیں گے؟
اس سال کے پے درپے ہونے والے حادثات دنیا بھر میں
آپ کے نا مکمل سیاحتی اقدامات کی وجہ سے
اس سال کو سیاحتی مقتل کے عنوان سے
یاد رکھیں گے
لِلہ
پاکستان میں اس غریب قوم کے مرنے کیلئے
پہلےکیا کم اسباب ہیں
کہ
اب سیاست سے آگے بڑہتے ہوئے
“” سیاحتی مقتل”” بھی سجا دیا گیا

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر