کابل (جیوڈیسک) افغانستان میں نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار امراللہ صالح کے سیاسی دفتر پر خونریز حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر بیس ہو گئی ہے۔ امراللہ صالح ملکی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
کابل میں یہ حملہ امراللہ صالح کی ‘سبز رجحان‘ نامی پارٹی کے صدر دفتر پر کیا گیا۔ ملکی وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق اتوار کو کیے گئے اس حملے میں پچاس کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس دوران سکیورٹی دستوں کی حملہ آوروں کے ساتھ لڑائی کئی گھنٹے تک جاری رہی اور کئی حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
حملہ آوروں کا ہدف امراللہ صالح تھے، جنہیں سکیورٹی دستوں نے اس حملے کے دوران ان کے پارٹی کے مرکزی دفتر سے بحفاظت نکال لیا تھا۔ صالح آئندہ انتخابات میں موجودہ صدر اشرف غنی کے نئے نائب کے طور پر اپنے انتخاب کے خواہش مند ہیں۔ نصرت رحیمی کے مطابق اس حملے کے دوران وہاں موجود دیگر پچاسی افراد کو بھی بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن دارالحکومت میں طالبان اور داعش دونوں گروہ ہی مسلح کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
اتوارکو افغانستان میں صدارتی انتخابات کی مہم شروع کرنے کے حوالے سے پہلا دن تھا اور اس پہلے دن ہی سب سے محفوظ سمجھے جانے والے دارالحکومت میں اس اہم شخصیت پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس حملے کے ساتھ ہی صدارتی انتخابات کے انعقاد اور سکیورٹی کے حوالے سے سوالات اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں مجوزہ صدارتی انتخابات کا انعقاد ستمبر کے اواخر میں ہو گا۔
اس حملے کے کچھ ہی دیر بعد افغان صدر اشرف غنی نے ایک ٹویٹر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس ‘پیچیدہ حملے‘ کے بعد امراللہ صالح خیریت سے ہیں۔
امراللہ صالح نے ‘سبز رجحان‘ نامی پارٹی کی بنیاد اُس وقت رکھی تھی، جب سن دو ہزار دس میں سابق صدر حامد کرزئی نے انہیں ملکی خفیہ ایجنسی کی سربراہی سے فارغ کر دیا تھا۔ سیاسی لحاظ سے امراللہ صالح کو افغان سیاست میں ایک نیا اضافہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ افغانستان میں جمہوریت کے حامی اور اصلاحات پسند تصور کیے جاتے ہیں جبکہ وہ طالبان اور اُن کے نظریات کے شدید مخالف بھی ہیں۔
کابل پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق سب سے پہلے ان ایک کار دھماکا کیا گیا اور اس کے بعد مسلح حملہ آور نے وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔
صدر اشرف غنی اٹھائیس ستمبر کے انتخابات میں دوسری مرتبہ صدارتی عہدے کے لیے حصہ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس مرتبہ اٹھارہ سالہ جنگ ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن طالبان اور امریکا کے مابین گزشتہ کئی ماہ سے جاری امن مذاکرات میں ابھی تک انہیں شامل نہیں کیا گیا۔