ہیلو پاپا کہاں ہیں آپ؟؟؟ گڑیا: میں آفس میں ہوں کیوں کیا ہوا؟؟؟؟ گڑیا : پاپا آپ جلدی گھر آجائیں مجھے اپنے فرینڈ عامر کے ساتھ 14 اگست کی شاپنگ کرنے جانا ہے گھر کوئی بھی نہیں ہے آپی تو کالج سے ہی اپنے فرینڈ کے ساتھ شاپنگ کرنے چلی گئی ہے مجھے وائٹ شرٹ اور ٹراؤزر لینا ہے تاکہ کل جب میں گال پر دل دل پاکستان لکھواؤں تو جو دیکھے وہ دیکھتا رہ جائے پچھلے سال کی طرح اس بار بھی ہم خوب انجوائے کریں گے عامر نے تو 14 اگست کے لیے نئی بائیک بھی لے رکھی ہے پاپا : اوکے بیٹا میں آتا ہوں
سامنے ہاتھ میں گن پکڑے ایک ریٹائرڈ فوجی جو بڑھاپے کی کئی مسافتیں طے کرچکا ہے اسکی نم آنکھوں نے ماڈرن بابو کو حیران ہوکر سوال پوچھنے پر مجبور کردیا کہ بابا جی خیر تو ہے کیا ہوا آپکی آنکھیں نم کیوں ہیں؟؟؟؟ بابا: صاحب کچھ نہیں مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے جب میں نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ باجی مجھے بھی جھنڈا چاہیے مجھے بھی جھنڈا لہرانا اور آواز لگانی ہے لے کہ رہینگے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان
صاحب میری بہن چپکے سے اندر گئی اور اپنی سبز قمیض کا دامن پھاڑ کر مجھے کہتی ہے جاؤ بھائی لکڑی کا ڈنڈا لے آؤ پھر میری بہن نے پہلی مرتبہ میرے ہاتھ میں جھنڈا دیا اور میں بہت خوش تھا آج معلوم ہوا کہ وہ خوشی کس بات کی تھی وہ خوشی اس بات کی تھی کہ میں نے پاک سرزمین کو اپنی بہن کے دامن سے پہچان دی تھی
صاحب آپکو معلوم ہے پھر کیا ہوا؟؟؟؟؟؟؟ ہمارے محلے پر ہندؤں نے حملہ کردیا اور میری بہن کی عزت لوٹ لی اور اسے ساتھ لے گئے دو دن بعد ہمیں اپنی بہن کھیتوں سے ملی تو وہ زہنی توازن کھو بیٹھی تھی اور اسکی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا بن کے رہے گا پاکستان ہم لے کے رہیں گے پاکستان صاحب میں چھوٹا تھا میں ساری رات اپنی بہن سے لپٹ کر روتا رہا اور رات کو کسی پہر ہمارے ماموں لوگ آئے اور میری بہن کو کہیں لے گئے میں اور میرے چاچو صبح ہونے سے پہلے ہی اپنا گھر چھوڑ چکے تھے میرے ہاتھ میں صرف ایک جھنڈا تھا جسے میرے چاچو نے جب صبح دیکھا تو اسے سینے سے لگا کر بہت رویا اور کہتا رہا کہ تمھاری خاطر ہم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لٹوادی ہیں نہ جانے تم ہم سے اور کتنی دردناک قربانیاں لوگے میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ چاچو بار بار اس جھنڈے کو یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ تم اور کتنی قربانیاں لو گے
صاحب میں چاچو سے پوچھتا کہ ہم کہاں جارہے ہیں تو چاچو کہتے معلوم نہیں بیٹا تم بس چلتے رہو اس وقت تک جب تک موت نہیں آجاتی یا پھر ہم اپنے ملک نہیں پہنچ جاتے
صاحب آج سمجھ آئی کہ میرے چاچو کس ملک کو اپنا ملک کہتے کہتے سفر میں مصروف رہے
راستے میں بہت لوگ مرے ہوئے تھے ایک مکان میں ہم چھپے ہوئے تھے کہ ایک دودھ پیتا بچہ رونے لگا تو اسکی ماں نے اسکا گلہ گھونٹ دیا تاکہ وہ ہمیں پکڑوا نہ دے صاحب ہر طرف لاشیں بچھی تھی اور گدھ اور جانور انھیں کھانے میں مصروف تھے ہم کچھ لوگ رات کو وہیں رک گئے تاکہ اس جگہ رات گزار سکیں اور صاحب معلوم ہے آپکو ساری رات میرے چاچو کیا کرتے رہے؟؟؟؟؟ ساری رات میرے عورتوں کی لاشوں پر مردوں کے بدن سے کپڑے پھاڑ کر ڈالتے رہے اور روتے رہے اور جاگتے رہے کہ جانور مسلمان ماؤں بہنوں بیٹیوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرسکیں اور اسی دوران نہ جانے کب انکی آنکھ لگ گئی وہ تھوڑی دیر ہی سوئے کہ پھر رات کو اٹھ کر سفر شروع کردیا جب میرے چاچو اس پاکستان میں پہنچے تو میری بہن کے دامن اور پاکستان کے سادے جھنڈے کو ہر وقت چومتے رہتے تھے یہاں تک کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے معلوم ہے صاحب کہ ہمارے چاچو کیا کہا کرتے تھے؟؟؟؟ جب بھی کوئی شخص بھارت کی بات کرتا تو آپ رونے لگ جاتے اور کہتے کہ خدا کے لیے اس ملک کا نام مت لو جس نے پاکستان کی قیمت ہم سے ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لوٹ کر وصول کی
صاحب دیکھو نا جن عزتوں کو بچانے کے لیے ہماری ماؤں اور بہنوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں انھیں ہماری آج کی بیٹیاں سرعام نیلام کرتی پھر رہی ہیں انھیں کون بتائے کہ اس پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد اپنی عزتیں لٹا کر اپنی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ کرنا تھا
کاش میں انھیں اپنی بہن کا پھٹا دامن دکھا پاتا۔۔۔۔۔۔۔