یہ احساس خوشگوار ہو سکتا ہے کہ اب پاکستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن مہنگائی، غربت اور لوڈشیڈنگ کی ماری قوم کو اس میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان کو آج جن چیلنجزکا سامناہے اس سے نبرد آزما ہوئے بغیر خوشحالی کے گیت نہیں گائے جا سکتے کرپشن،اختیارات سے تجاوز:سرکاری اداروںمیں اہلکاروںکی ہڈحرامی ،رشوت ،سفارش جس سے بڑھ کر تھانہ کلچر ایسے مسائل ہیں جن کی طرف کسی حکمران نے توجہ نہیں دی،کرپشن کے خلاف نیب نے کچھ لوگوںکا ناقظہ ضرور بندکیاہواہے اس کے متعلق بھی کہایہ جارہاہے کہ انکا احتساب بلکہ ان سے سیاسی انتقام لیاجارہاہے لیکن جب تک جمہوریت اشرافیہ کی لونڈی بنی رہے گی ملک میں جمہوریت رہے یا ڈکٹیٹر آئیں کیا فرق پڑتاہے حکمرانوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ جمہوریت کے ثمرات سے عوام تک پہنچیں لیکن جناب ملک کے طول وعرض میںبااثر لوگ غریبوں سے جوسلوک کررہے ہیں سوشل میڈیا پر ان کی دہائی سنیں تو سوتے وقت کانوںمیں مظلوموں کی چیخوں سنائی دیتی ہیں تو سے دل پگھل جاتے ہیں کوئی فصلوںمیں جانور چرنے پر معصوم چرواہے کو پھانسی دے دیتاہے ،کوئی معمولی سی غلطی پر ہاتھ پائوں کاٹ دیتاہے، سرعام سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں فورسزکے سامنے عدالتوںمیں،ائرپورٹس پریا پبلک مقامات پر مخالفین کوگولیاں مارکرقتل کردیا جاتاہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کدھرجارہاہے؟ اور اس سے بڑھ کر قانون نافذکرنے والوںکی کارکردگی ایسی ہوتی ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ سب کچھ کس نے درست کرنا ہے۔
ایک وفاقی وزیر نے ایک کمزور خاندان پر ظلم کیا عدالت نے سزاسنائی وہ کچھ مہینوں معظل رہا تبدیلی سرکارنے پھر اسے وزیر بنادیا اسے وزیر بنانے کا مطلب ہے کہ جس پورے کے پورے خاندان کو دہشت گرد قرار دے کر تھانے میں بندکردیا گیا تھا وہ قصور وارتھا اور منسٹر موصوف بالکل نہائے دھوئے ۔۔بے گناہ ۔ ۔ صدیوں پہلے عظیم فلاسفر افلاطون نے کہا تھا سیاست سے کنارہ کشی کا مطلب ہے تم پرکمترلوگ حکومت کریں اس کا کہا سچ ثابت ہوا آج اقتدار میں کمتر ہی نہیں کمینے لوگ بھی آگئے ہیں جنہوںنے پاکستان میں جمہوریت کو یرغمال بنالیا ہے ان کو ملک، قوم،آئین ،قانون،جائز ناجائزسے کوئی غرض نہیں فقط اپنا فائدہ عزیزہے اور اس فائدے کیلئے کسی بھی حد سے گذر جانے کو تیارہیں غورکریں تو یہی لوگ وطن ِ عزیز میں مسائل ہی نہیں فسادکی جڑ ہیں عوام کی حاکمیت جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ موجودہ حکومت عوام کا بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی ہے اس لئے عوام کی خدمت ان کے پیش ِ نظرہو نا لازم ہے اس طرح بہت سے مسائل دنوںمیں حل کئے جا سکتے ہیں مثلاً گراں فروشوںکے گردشکنجہ کس دیا جائے تو بہتوںکا بھلا ہوگا اور غریب دعائیں دیتے پھریں گے۔ بے شک مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن کا خاتمہ ، امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے صحت ،تغلیم اور بنیادی حقوق سب کیلئے یکساں ہوں تو ایک روشن مستقبل کی بنیادررکھی جا سکتی ہے۔
ہماریتمام سیاستدان جمہوریت ۔۔ جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے، بیشتر حلق پھاڑکر پارلیمنٹ کی بالا دستی کیلئے چیختے ہیں، زیادہ تر آئین اور قانون کی باتیںکرتے ہیںتوکئی لوگوںکی ہنسی نکل جاتی ہے کہ ان لوگوںنے عوام کو کیسے کیسے ڈھب سے بیوقوف بنایا ہواہے پھر بھی نہ جانے کیا بات ہے لوگ ان کے چنگل سے نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں؟ یوں محسوس ہوتاہے تمام ہم وطن سورج مکھی کے کھیت میں اگنے والے پودے ہیں سورج نکلتاہے تو سب کے منہ سورج کی طرف ہو جاتے ہیں اور ساری ان کی ساری زندگی ایسے ہی زندہ باد۔۔مردہ باد۔۔۔آوے ای آوے یا جاوے ای جاوے کی گردان کرتے گذرجاتی ہے۔سمجھنے،سوچنے اور غورکرنے کی بات ہے جمہوریت ۔ ۔جمہور کیلئے ہے یا اشرافیہ کیلئے۔۔۔پاکستان کے تمام سیاستدانوںپر نظردوڑائیں99%سیاستدان ابن ِ سیاستدان ہوں گے ان لوگوںنے جمہوریت، آئین اور قانون کو گھرکی لونڈی بنارکھاہے سرکاری نوکریاں، قرضے ،پلاٹ ، وزارتیں اور ملکی وسائل انہی کیلئے مخصوص ہوکررہ گئے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت اس طبقہ کے فائدے کی بات ہے یہی لوگ جمہوریت کے نام پر کاروبارکررہے ہیں انہی نے اپنے بھائیوں،سالوں اور کزنوںکے نام پر کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں وہ فرنٹ مین ہیں جبکہ منافع ان کی اپنی جیبوں میں آرہاہے۔ انہوں نے آکٹوپس کی طرح پورا معاشرے کو جکڑ رکھاہے عدلیہ، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ،فیوڈل لارڈز،سرمایہ داروں اور سیکیورٹی اداروںکے بڑے بڑے خاندانوںک ے ساتھ ان کی رشتہ داریاں ہیں حکومت کسی پارٹی کی آجائے، اپوزیشن میں جو بھی سیاستدان ہو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے باوجود ایک بات سمجھ سے بالاہے لوگ جاگتے کیوں نہیں۔۔۔ جاگنا کیوں نہیں چاہتے شایداس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔۔ لیکن ایک بات کا یقین ہے جس دن اس سوال کا جواب مل گیا انقلاب آجائے گا ورنہ قوم ایسے ہی بے حسی کا مظاہرو کرتی رہی،جھوٹے سیاستدانوں کے حق میں نعرے لگاتی رہی یا پھر سچ سے خوف کھاتی رہی تو ہماری حالت اور ملکی حالات کبھی نہیں بدلیں گے ہماری نسلیں بھی اسی عذاب کا شکار رہیں گی جس میں ہم سب مبتلاہیں دعاہے کہ خوشحالی و ترقی سب کانصیب بن جائے ہماری سوچ نہ بدلی تو یقین ہے کہ انقلاب کبھی نہیں آ سکتا۔