ممبئی (جیوڈیسک) بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق صدارتی حکم نامے کے ذریعے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا گیا ہے جس کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر اب ریاست نہیں کہلائے گی۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔
دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نا ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل راجیہ سبھا میں پیش کیا۔
ہندو انتہا پسند بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے راجیہ سبھا میں خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کی گئی۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارت کی جانب سے وادی کی خصوصی حیثیت سے متلعق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کے برصغیر پر تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ مودی سرکار کا فیصلہ مقبوضہ کشمیر کی لیڈر شپ کا 1947 کے بھارت سے الحاق نہ کرنے کے فیصلے سے متصاد م ہے، بھارتی حکومت کا یک طرفہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
وادی کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بھارت کشمیر میں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔
بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے مودی سرکار کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج بی جے پی نے آئین کا قتل کر دیا ہے۔
غلام نبی آزاد نے کہا کہ ہم بھارتی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنی جانوں سے بھارتی آئین کا تحفظ کریں گے۔
سابق وزیر اعلی مقبوضہ کشمیر نے اپنے ردعمل میں کہا کہ بھارتی حکومت کا یک طرفہ اور چونکا دینے والا فیصلہ کشمیریوں کے بھروسے کے ساتھ دھوکا ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 سے متعلق ہمارے خدشات بدقسمتی سے درست ثابت ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدام مقبوضہ کشمیر کے عوام کے خلاف جارحیت ہے اور آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے خطرناک نتائج ہوں گے، آگے ایک طویل اور سخت جنگ ہے جس کے لیے ہم تیار ہیں۔
واضح رہےکہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی جسے بھارت نے مسترد کر دیا اور امریکی صدر کی پیشکش کے بعد سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔
لائن آف کنٹرول پر بھی بھارتی اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو گیا ہے اور بھارت نہتے کشمیریوں پر کلسٹر بموں سے حملے کر رہا ہے جو جینیوا کنونشن کے ساتھ عالمی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
بھارت نے آئین سے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ سمیت حریت رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر کے اضافی نفری تعینات کر دی ہے۔