سن دو ہزار سترہ تک افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب لورل ملر کا کہنا تھا، ”اس کا قوی امکان ہے کہ ستمبر سے پہلے ایک معاہدہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ معاہدہ صرف طالبان اور امریکا کے مابین ہو گا، یہ افغانستان کے لیے امن معاہدہ نہیں ہو گا۔“ان کا مزید کہنا تھا، ”اس میں بنیادی سوالات پر بات ہی نہیں کی گئی۔ افغانستان پر حکومت کرنے کے لیے طالبان کیا کردار ادا کریں گے اور کیا نہیں۔ امریکا کی طرف سے قائم کیے جانے والی موجودہ حکومت اور اور نظام کا مستقبل کیا ہو گا؟“۔افغانستان میں جنگ بندی کی صورتحال یقینی و بے یقینی کے درمیان ملحق ہے۔ کابل انتظامیہ کے حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اگلے دو ہفتے میں افغان طالبان سے حکومتی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن افغان طالبان اس حوالے سے کابل انتظامیہ کے موقف کو ایک بار مسترد کردیا ہے۔افغان طالبان نے کہا ہے کہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ فی الحال براہ راست بات چیت کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ طالبان کی جانب سے یہ بیان کابل حکومت کے ایک بیان کے جواب میں سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا امکان پیدا ہوا ہے۔خلیجی ریاست قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغان فریقین کے مابین بات چیت کا سلسلہ اُسی وقت شروع ہو سکتا ہے، جب غیرملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کا اعلان کیا جائے گا۔ستائیس جولائی کوکابل حکومت کے وزیر مملکت برائے امن امور عبد السلام رحیمی نے مذاکرات کے شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ رحیمی نے یہ تک کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں کابل حکومت کا پندرہ رکنی وفد شریک ہو گا۔تجزیہ کاروں کے مطابق رحیمی کا یہ بیان اس اندازے پر مبنی ہو سکتا ہے کہ اگلے ایام کے دوران افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کی صورت واضح ہو جائے گی۔واضح رہے کہ دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان آٹھواں فیصلہ کن مذاکراتی دور شروع ہوچکا ہے۔ تاہم معاہدے کا اعلان متوقع نہیں ہے۔ دوسری بین الافغان کانفرنس اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بعد ستمبر کے آخر میں نیا سیکورٹی معاہدہ کا اعلان متوقع ہے۔
دوسری جانب جانب جہاں انٹرا افغان ڈائیلاگ کو افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کی سمت میں اہم پیش رفت قرار دیا گیا تھا اور اگر امریکی افواج کا انخلا کا سیکورٹی معاہدہ طے پاجاتا ہے تو اس وقت تک اپوزیشن سیاسی و دیگر گروپوں سے افغان طالبان کے مذاکرات حتمی حل تک جانے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سیاسی کردار ادا کرنے کو ترجیح دیئے جانا ہے، ماضی کے مقابلے میں داعش کے علاوہ جنگجو گروپوں کے درمیان خانہ جنگی کے امکانات کم نظر آرہے ہیں، تاہم خدشات موجود ہیں کہ پاکستان سے افغانستان فرار ہونے والے دہشت گرد گروپ امن دشمن عناصر کے ساتھ مل کر جہاں پاکستان کے لئے مسائل پیدا کریں گے وہاں افغانستان میں بھی امن کے قیام میں رخنہ ڈالنے سے گریز نہیں کریں گے۔ گو کہ افغان طالبان ایک قوی عسکری قوت کے طور پر ان کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے اور ماضی کے مقابلے میں افغان طالبان کے تعلقات روس، ایران، وسط ایشیائی ممالک، چین، جرمنی سمیت کئی ممالک سے بہتر ہوچکے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں انڈونیشیا کے نائب صدر سے ملا برادر کی ملاقات ہوئی۔ افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر اخوند کی قیادت میں 8 رکنی وفد نے 27 جولائی 2019ء کو انڈونیشیا کے نائب صدر یوسف کالا، وزیر خارجہ ریٹنو لیستاری اور دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی۔اُس وقت انڈونیشیا میں وفد میں مملکت قطر کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر اخوند، مولوی عبدالسلام حنفی، مولوی سیدعلی، ملا خیراللہ خیرخواہ، مولوی امیرخان متقی، ملا نوراللہ نوری، ملا عبدالحق وثیق اور سیاسی دفتر کا ترجمان سہیل شاہین شامل تھے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا پہنچنے پر میزبان ملک کے اعلی حکام نے افغان طالبان کے وفد کا شاندار استقبال کیا اور نائب صدر کی جانب سے عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا،جس میں نائب صدر سمیت انڈونیشیا کے اعلی حکام نے بھی شرکت کی۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق 80فیصد متنازع امور طے پا چکے ہیں مگر طالبان کی مخالفت پر کابل حکومت کے نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بات چیت نتیجہ خیز نہیں ہو سکی، امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں اس وقت بھی مذاکرات جاری ہیں۔ اگرچہ معاملہ اب بھی ابہام کا شکار ہے۔ جہاں تک امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا مسئلہ ہے تو صدر ٹرمپ صدارتی انتخابات سے قبل اس سلسلے میں واضح اعلان کی توقع دلا چکے ہیں۔ مسئلہ صرف جنگ بندی کا رہ جاتا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں جنگ بندی کے معاہدے سے قبل افغان طالبان ا ور سیکورٹی فورسز کے درمیان جنگ بھی جاری ہے۔ حالیہ دنوں افغان طالبان نے غزنی میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کے دفتر پر کار بم حملہ کیا تھا جس میں 14اہلکار ہلاک ہوئے۔اس حملے سے افغان طالبان نے اپنے ارادے ظاہر کر دیئے تھے کہ اگر ان پر کسی بھی جانب سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو وہ کسی کی ڈکٹیشن کو قبول کرے کو تیار نہیں ہیں۔گو کہ امریکا نے پاکستان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیں لیکن پاکستان صرف ایک حد تک ہی جانے کی پوزیشن رکھتا ہے۔
پاکستان کی دیرینہ خواہش ہے کہ ملت افغان ملک کو باہمی جھگڑوں کا شکار نہ بننے دیا جائے اور ایسے عناصر جو عوامی مقامات میں بم دھماکے کررہے ہیں وہ دراصل افغان امن تنازع کی راہ میں مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بس اسٹینڈ کے قریب دھماکے کئے گئے جس کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی، افغان طالبان نے بھی ان دھماکوں کی مذمت کی کہ افغان طالبان عوامی مقامات و نہتے شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کی پالیسی رکھتے ہیں،۔ تاہم حکومتی ملازمین اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی ذمے داری قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کاغیر ملکی افواج اور ان کے سہولت کاروں کو افغانستان سے جانے پر مجبور کرنا ہے۔۔ ماضی کی افغان طالبان کے دور میں جن قوانین و آئین کے تحت حکومت قائم تھی۔ اب اس کے کچھ خدوخال تبدیل ہوں گے کیونکہ موجودہ افغان طالبان کے سیاسی وژن میں اجتہادی تبدیلی بھی آئی ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ روس اور دوحہ میں انٹربین الافغان کانفرنس میں دیکھا گیاتھا۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نئے سیکورٹی معاہدے میں افغان طالبان لچک کا مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن اس حوالے سے تاحال افغان طالبان، کابل انتظامیہ سے باقاعدہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔کیونکہ ان کے نزدیک کابل انتظامیہ کٹھ پتلی حکومت ہے جس سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ تاہم اہم اسٹیک ہولڈر سے مذاکرات سے افغان طالبان سیاسی حل کی تلاش سے انکاری نہیں ہیں۔
افغان طالبان دور میں نائب وزیر عدل و انصاف کے طور پہ خدمات انجام دینے والے جلال الدین شنواری کا کہنا ہے کہ ”تحریک کا نیا مسلح گروہ امارت اسلامیہ کی واپسی سے کم کسی شرط پر رضامندی ظاہر کرنے کے لیے تیارنہیں ہوگا۔طالبان کا سیاسی ونگ چاہے نرمی دکھائے لیکن مذاکرات کے دور کا حتمی فیصلہ عسکری ونگ کے کمانڈر کریں گے“۔شنواری کا کہنا ہے کہ”طالبان کو انتخابات قبول نہیں ہوں گے۔ وہ امریکیوں سے کہتے ہیں کہ آپ اسلامی حکومت قبول کریں، آپ نے امارت ہم سے چھینی تھی اسی طرح ہمیں واپس کریں“۔ انہوں نے مزید کہا کہ”اگر سیاسی قیادت دو قدم پیچھے ہٹ بھی جائے، عسکری ونگ بہرحال ایسا نہیں کرے گا، اور اگرتحریک تقسیم کا شکار ہوجاتی ہے تو صورتحال بدتر ہوجائے گی“۔شنواری کے مطابق وہ امریکی نمائندوں سے کہتے ہیں ”آپ نے سعودی عرب کو تسلیم کر رکھا ہے ہم بھی اس کے بنیادی ڈھانچے سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر آپ سعودی عرب کو تسلیم کرسکتے ہیں تو ہمیں تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر آپ یہ کرلیں تو اس کے بعد ہم باہمی تعاون، دوستی اور اقتصادی تعلقات کے حوالے سے آپ کی ترجیحات کا خیال رکھیں گے‘۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا پاکستان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی حکام نے امریکی حکام سے کیایقین دہانی کرائی ہیں اس کی تفصیلات تو سامنے نہیں ہیں لیکن اتنا اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کا ”ٹاسک“ دیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی کی جانب سے ایسے اشارے ملتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ افغان طالبان نے پاکستان کی جانب سے طالبان رہنماؤں سے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے مثبت بیان دیا جاچکا ہے کہ اگر پاکستان انہیں رسمی دعوت دیتا ہے تو وہ انکار نہیں کریں گے۔ اب وزیر اعظم کی جانب سے باضابطہ مذاکرات کی دعوت کا انتظار ہے کہ وزیراعظم افغان طالبان سے ملاقات کریں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان کو باضابطہ دعوت دینے کی ابتدائی اقدامات و حکمت عملی وضع کرلی ہے۔ توقع یہی ہے کہ کابل انتظامیہ کو اس بار وزیراعظم اور افغان طالبان کے درمیان ملاقاتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس سے قبل سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا باضابطہ اعلان ہوچکا تھا لیکن کابل انتظامیہ کی جانب سے اعتراض اور اقوام متحدہ میں شکایت کے بعد پاکستان و افغان طالبان کے درمیان مذاکرات نہیں ہوسکے تھے۔
پاکستانی اعلی قیادت اور افغان طالبان رہنماؤں کے درمیان ایک نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات جلد ہوسکتے ہیں۔لیکن اس بات کی توقع کم رکھی جا رہی ہے کہ پاکستان کی اپیل پر افغان طالبان، کابل انتظامیہ سے دوحہ مذاکرات کے حتمی نتائج سے قبل مذاکرات میں شامل ہوسکیں۔ تاہم اس حوالے سے پاکستان اپنے مینڈیٹ کے مطابق کوشش ضرور کرے گا۔ لیکن حتمی فیصلہ افغان طالبان کی قیادت کو ہی کرنا ہوگا۔ جو فی الوقت امریکا سے مکمل حتمی معاہدے سے قبل کابل انتظامیہ کو نئے سیکورٹی مسودے میں فریق نہیں بنانا چاہتے بلکہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان نئے سیکورٹی معاہدے کے بعد افغان طالبان اپنے مینڈیٹ کے مطابق دیگر گروپوں سے معاہدے ضرور کرسکتا ہے اور اس میں کابل انتظامیہ سے وابستہ شخصیات بھی شامل ہیں۔ لیکن اس کے لئے امریکی افواج کے انخلا تک انتظار کرنے کا بیانیہ سامنے آچکا ہے۔خطے میں امن و افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر کافی اہمیت دی جا رہی ہے اور اب پاکستانی حکام کا امتحان بھی ہے کہ وہ عالمی برداری سے کئے وعدوں کے مطابق اپنی استطاعت و قوت کے مطابق ہی قابل عمل راستہ نکالے تاکہ امریکا و عالمی برداری میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے اور پڑوسی ممالک بالخصوص چین، ایران کواعتماد میں لے کر بھارت دشمنی کے تمام لاحق خطرات و تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے افغان طالبان سے با مقصد مذاکرات کو یقینی بنائے۔ تاکہ خطے میں امن کی مسدود رائیں بحال ہوسکیں اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہونے میں بھی مدد ملے۔افغان طالبان کا پاکستان سے بات چیت و مذاکرات کے لئے آمادگی سے افغان امن جلد حل ہونے کا امکان خطے میں امن پسندوں کی کامیابی بن سکتی ہے۔