وہ ایک کند ذہن بچہ تھا۔ روز سکول آتا لیکن اسے کبھی سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔ استاتذہ سے روز ڈانٹ ڈپٹ اور مار کھانا اس کا روز کا معمول تھا۔ وہ کلاس میں ہمیشہ دبا دبا رہتا اسے کسی سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں تھا۔شاید وہ لوگوں سے بات کرنے میں ڈر محسوس کرتا تھا۔کیوں کہ اسے اکثر مذاق کے نشانے پر لیا جاتا تھا۔
یہ روش اسکی برسوں سے چلی آ رہی رہی تھی اب وہ آٹھویں کلاس میں پہنچ چکا تھا اور استاتذہ اور والدین کا خیال تھا یہ اب آگے نہیں پڑھ سکے گا۔
پھر ایک دن اسکے ساتھ بہت انوکھا ہوا۔
ایک دن جب وہ کلاس میں سبق سنانے کے لیے اٹھا تو حسب معمول اسے سبق یاد نہیں تھا وہ ڈر اور ندامت سے رونے لگا۔وہ مار کے ڈر سے گھرایا ہوا تھا۔
استاد نے اسکی یہ کیفیت دیکھ کر کچھ دیر اس کے چہرے کی طرف اور آنکھوں میں دیکھا اور کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھ کر کہا ” قاسم تم کر سکتے ہو”
اور بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔
قاسم علی کے لیے یہ الفاظ بہت غیر مانوس تھے پہلے کبھی اسے ایسے الفاظ سے واسطہ نہیں پڑا تھا سب ہی تو اس کا مذاق اڑاتے، تحقیر کرتے اسے کند ذہن اور نکما سمجھتے تھے۔
اسے ان الفاظ کی تاثیر اور طاقت نے اپنے حصار میں جھکڑ لیا۔آج وہ خود کو بہت پرسکون اور بدلا سا محسوس کر رہا تھا۔
پھر اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک فیصلہ کیا۔
آج رزلٹ کا دن تھا سب حیران تھے سکول میں کلاس کا کند ذہن بچہ کلاس میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوا تھا اور اس کا نام پوزیشن ہولڈر میں چمک رہا تھا۔
اس کے بعد قاسم علی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور وہ کامیابیاں سمیٹتا گیا۔
میٹرک، ایف ایس سی، بی ایس سی انجینئرنگ میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوتے ہوئے آج وہ ایک کامیاب اور مشہور استاد بن چکا تھا۔
پھر ایک دن اس نے ایک عجیب فیصلہ کیا اس نے تھپکی کا قرض اتارنے کا فیصلہ کیا اور دوسروں کے لیے روشنی کی نوید بن گیا۔اب وہ لاکھوں نوجوانوں کی زندگی میں انقلاب لا چکا تھا۔لوگ اس کا نام سن کر ادب سے سر جھکا لیتے اور اہل علم اسکی بیٹھک کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔
اسے قوم و ملت کی عظیم اور بے لوث خدمات پر قومی اور بین الاقوامی اعزازت سے نوازا گیا۔
جی یہ کہانی کسی ایسی شخص کی نہیں جسے آپ نہ جانتے ہوں۔ یہ کہانی پاکستان کے سب سے بڑے کارپوریٹ ٹرینر، موٹیوشنل سپیکر عظیم اسکالر ” سر قاسم علی شاہ ” کی ہے۔ جی ہاں وہی قاسم علی شاہ جو کند ذہن تھا۔