میں نے کچھ خواب جلائے تھے ابھی کل پرسوں جانے کیا ڈھونڈنے آئے تھے ابھی کل پرسوں دل کی تختی کہ سفیدی سی جمی تھی جس پہ اس پہ کچھ نقش بنائے تھے ابھی کل پرسوں خردمندوں کی طرح کیسے مجھے ٹوکتے ہیں جن پہ آسیب کے سائے تھے ابھی کل پرسوں لے کے آنکھوں کی اداسی،تیرے چہرے کا سکوت میں نے کچھ شعر بنائے تھے ابھی کل پرسوں ہائے وہ شام کے منظر کہ میری آنکھوں کو چند لمحوں کو ہی بھائے تھے ابھی کل پرسوں ہم نے الفت کی رہِ خار پہ چلتے چلتے رنج ہی رنج اٹھائے تھے ابھی کل پرسوں ہم جہاں بھر کے نکمے تھے فقط عشق کیا اور بس درد کمائے تھے ابھی کل پرسوں