پنجابی کی معروف کہاوت ہے ” چوری تے نال سینہ زوری” ٹھیک اسی کہاوت کے مطابق بھارت شروع سے چلتا آ رہا ہے۔ 70 سال سے عالمی تنازعہ کو ایک ہی رات میں حل کرکے مودی حکومت نے اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑ دیے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر بھارت کا ایوان راجیہ سبھا مچھلی منڈی بنا رہا، شور شرابا ،ہنگامہ آرائی اور اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر سےمتعلق آرٹیکل 370 ختم کرنےکا اعلان کیا ۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل وزیر داخلہ امیت شاہ کی طرف سے پیش کئے جاتے ہی ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ کانگریس سمیت کئی پارٹیوں نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق مودی سرکار کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ کانگرس رہنما اورسابق وزیر داخلہ چدم برم نے حکومتی اقدام کو غیرآئینی قرار دیا۔ کانگریس کے رکن غلام نبی آزاد نے ایوان میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔یہ فیصلہ بھارتی آئین کا قتل ہے، سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بی جے پی یہاں تک جائے گی۔
اس دوران اپوزیشن کے شدید احتجاج نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو پریشان کئے رکھا ۔ امیت شاہ کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد سے بولنے کی اجازت طلب کرتے رہے مگر غلام نبی آزاد نے بی جے پی کے اس متنازعہ فیصلے کے خلاف اپنا خطاب جاری رکھا۔ اپوزیشن ارکان نے چیئرمین کے ڈائس کے سامنے بھی احتجاج کیا ،مودی سرکاری کی اتحادی جماعت جنتا دل یونائٹڈ نے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجاً اجلاس سے واک آوَٹ بھی کیا ۔مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے نذیر احمد اور ایم ایم فیاض نے بھی بھارتی آئین کو پھاڑنے کی کوشش کی ۔ ایم ایم فیاض نے تو اپنا کرتا بھی پھاڑ دیا ۔ہنگامہ آرائی کرنے پر دونوں ارکان کو ایوان سے نکال دیا گیا ۔ ایک ایسا متنازعہ علاقہ جیسے قدرت ، وہاں کی عوام ، عالمی برادری اور خود بھارتی عوام بھارت کا حصہ نہیں سمجھتی اسے ذبردستی “جسکی لاٹھی اسکی بھینس ” کے مقولے کے مطابق بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ 70 سال سے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھارت نے ردی کی ٹوکری میں ڈال رکھی ہیں، عالمی برادری کے لیے مقبوضہ کشمیر ایک نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔
ہر روز کشمیریوں کے جنازے اٹھتے ہیں، ہر روز کشمیریوں کے خون سے ہسپتال بھر جاتے ہیں، وہ کشمیری جھکے نہیں،کشمیری بےبس نہیں ہوئے بلکہ چشمِ فلک نے انوکھا منظر دیکھا کہ گولیوں کی بوچھاڑ، پیلٹ گن کے مہلک وار اور بھارتی فوج کی ہر ممکن کوشش کے باوجود کشمیری آزادی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے، ایسے منظر میں امریکی ثالثی کی پیشکش نے بھارت سرکار کے ہوش اڑا دئیے اور مودی حکومت نے کشیری کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ بھارتی حکومت کو اپنے کٹھ پتلیوں سے ڈر لگنے لگا اور محبوبہ مفتی ، عمر عبداللہ سمیت درجنوں سیاست دانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ بھارتی حکومت کے اس نامنصفانہ فیصلے پر مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلی مجبوبہ مفتی بھی پھٹ پڑیں۔ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارتیط1 حکومت جموں و کشمیر کو غزہ کی پٹی کی طرح بنانا چاہتی اور کشمیر کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتی ہے جو اسرائیل فلسطین کے ساتھ کر رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو انڈین آئین میں دیے جانے والے خصوصی درجے اور اختیارات کو ختم کرنے کے اعلان کے بعد بی بی سی کے لیے ناول نگار اور مصنف آتش تاثیر سے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’آج کا دن انڈیا کی جمہوریت کے لیے سیاہ ترین دن ہے۔‘ بھارتی وزیرِ داخلہ کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ سن کر بہت دھچکا لگا ہے۔ دوسری جانب بھارت کو اپنے ملک میں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق وزیر داخلہ اور بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما پی چدم برم نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو تاریخی غلطی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی آنے والی نسلیں اس غلطی کو محسوس کریں گی جو آج پارلیمان میں کی جا رہی ہے۔ پارلیمان کے آج کے اقدام سے بھارت کی تمام ریاستوں کو غلط پیغام جائے گا۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی اس فیصلے سے ناراض دیکھائی دیے، امرندر سنگھ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پرچیوں کے ذریعے فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے صلاح مشورہ بھی نہیں کیا گیا اس لیے یہ فیصلہ غیر آئینی ہے۔
امرناتھ سنگھ نے بھارتی پنجاب میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کی خوشی میں ریلیاں نکالنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی بڑی سیاسی جماعت کانگرس نے بھی آرٹیکل 370 کا خاتمے کوبھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا آغاز قرار دے دیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ مقبوضہ کشمیر میں ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں،امیت شاہ نے ’آدھا سچ‘ بولتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ایک تہائی مقبوضہ جموں و کشمیر ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے ذمہ دار نہرو اور کانگریس ہیں۔ بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کشمیری پوری دنیا میں سراپا احتجاج ہیں، اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت تقریبا تمام عالمی ادارے بھارتی فیصلے کی مذمّت کر چکے ہیں، عالمی برادری بھارت سے فیصلہ واپس لینے جا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کا کردار انتہائی مایوس کن نظر آتا ہے۔ جس جسم کی شاہ رگ کو الگ کیا جا رہا ہو اسے کیسے سکون میسر آ سکتا ہے، بھارتی فیصلے کے خلاف پاکستان حکومتی عہدیداروں نے سوائے بیان بازی کے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے، اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ پاکستان نے بھارتی فیصلے کے خلاف عالمی عدالت میں جانے یا بھارت کو سخت پیغام دینے کی ضرورت نہ سمجھتے ہوئے اقوام متحدہ سے فی الحال رجوع کرنے کا صرف فیصلہ کیا ہے۔
کشمیریوں کے لیے زندگی موت کا مسلہ بنا ہوا ہے لیکن بھارتی فیصلے کے بعد حکومتی پویلین کی جانب سے خاموشی ہی نظر آئی، کشمیریوں کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں پہلے حافظ سعید کو گرفتار کرکے مقدمات اور جماعت کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، شاید کی اسی فیصلے کے خلاف حافظ سعید کو روکنے کے لیے یہ اقدامات کیے گئے۔ او آئی سی کی کمیٹی برائے مقبوضہ جموں کشمیر کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا۔ دوسری جانب مقبوضہ وادی کی صورتحال انتہائی نازک دیکھائی دے رہی ہے، مقبوضہ کشمیر بھر میں دفعہ 144 کے تحت کرفیو نافذ ہے جبکہ انٹرنیٹ اور فون سروس بھی غیر معینہ مدت کے لیے معطل ہے۔ ایک ہفتے میں 50 ہزار فوجی تعینات کرکے بھی بھارت کو سکون نہ ملا تو مزید 70 ہزار فوجی تعینات کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس قبل اس چھوٹے سے خطے میں 9 لاکھ سے زائد فوج تعینات ہے۔ صرف بارڈر پر تعینات فورس ہاتھ میں ہاتھ ڈال مکمل لائن آف کنٹرول کو کور کر سکتی ہے، اتنی بھارتی تعداد میں فورسز کی تعیناتی کے باوجود اگر بھارت کشمیری مجاہدین کو نہیں روک سکا تو کیسے ممکن ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کو دبا سکے ، ان شاءاللہ یہ فیصلہ بھارتی کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا باعث بنے گا۔