وطن عزیز پاکستان میں اسلامی تہواروں پر مصنوعی مہنگائی اب عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، مہنگائی اور معاشی مشکلات کی وجہ سے اکثر افراد اس بات کا نوٹس بھی نہیں لیتے کہ جو چیز وہ خریدنے جا رہے ہیں یا خرید چکے ہیں اسکا معیار کیا ہے ،بازاروں میں کسی بھی چیز کی کوالٹی کے بارے پتا کریں تو دوکاندار یہ کہتے ہیں کی ایک نمبر یا دو نمبر چاہیے بلکہ اب تو مارکیٹوں میں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر الیکٹرانکس و دیگر اشیاء ایک نمبر سے لے کر تین چار نمبر تک فروخت کے لئے رکھی جاتی ہیں اور ان اشیاء کے خریدار بھی آسانی سے مل جاتے ہیں اسکی بڑی وجہ معاشی مسائل ہیں، ہمارے ہاں کرپشن (لوٹ کھسوٹ )کا معاشرہ میں سرائیت کر جانا انتہائی تکلیف دہ ہے۔
اسلامی تہواروں پر امیرہویا غریب سب اپنے قریبی رشتوں کے ساتھ خوشیاں منانا چاہتے ہیں اِن دنوں بازاروں میں رش کے ساتھ ساتھ وہ اشیاء بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوجاتی ہیں جو سارا سال اکثر خریدار کے معیار پر پورا نہیں اْترتیں رمضان المبارک کے بعد شوال میں عید الفطر ہو یا ماہ ذوالحج میں عیدالاضحی ،ہمارے ہاں ان اسلامی تہواروں پر اپنے مسلمان بھائیوں کولْوٹنے کے انتہائی سادہ سے چند طریقے رائج ہیں ایک تو وہ اشیاء بازار میں فروخت کے لئے لائی جاتی ہیں جو سارا سال معیاری نہ ہونے کی وجہ سے خاص حد تک فروخت نہیں ہوپاتیں جن میں خواتین اور بچیوں کے میک اپ اور آرائش کا سامان قابل ذکر ہوتا ہے دوسرا اْن اشیاء کی قیمتیں بلند کر دی جاتی ہیں جن کے بارے پتا ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی معاشی مجبوری کے باوجود ضرور خریدے گاجن میں کپڑے جوتے قابل ذکر ہیں۔
اشیاء خوردونوش تو مہنگی ملتی ہیں ساتھ ساتھ معیار بھی ناقص دیا جاتا ہے کچھ ایسا ہی شعبان میں شب برات ،ربیع الاول میں عید میلاد النبی کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے شاید دنیا کہ کسی بھی مہذب ملک میں مذہبی تہواروں پر ایسی لْوٹ مارنہ ہوتی ہو گی جیسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی تہواروں پر ہوتی ہے ماہ ذوالحج میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانور تین سے چار گنا زائد قیمت پر فروخت کیئے جاتے ہیں کیا اسلامی تہواروں پر مسلمان کاروباری افراد کو اْن کا دین ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے ؟ ہر گز نہیں دین اسلام میں اپنے مسلمان بھائی کو خوشیوں میں شریک کرنے پر جتنا زور ددیا گیا ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں ایسا حکم ہو ،لیکن ہم سب کچھ بْھلا کر چند سِکوں کی خاطر مصنوعی مہنگائی کا سبب بنتے ہیں ایک مناسب حد تک منافع کمانا تو کچھ سمجھ میں آتا ہے لیکن صرف اسلامی تہواروں پر اُن اشیاء کی قیمتیں بلند کر دینا جو ہر شخص کی ضرورت ہوں ،کیا یہ سب کچھ ہمارے ہاں قیمتوں اور معیار پر کنٹرول رکھنے والی اتھارٹیوں کی ناکامی نہیں ہے ؟ اگر انتظامیہ سے ان مسائل کو بیان کیا جائے تو درخواست دہندہ ریلیف کے چکر میں اپنا بہت سا قیمتی وقت ضائع کر بیٹھتا ہے ہاں البتہ خوشامدیوںجن میں بڑی تعداد اُن کی ہوتی ہے جن سے عوام کو شکایات ہوتی ہیں وہ انتظامیہ کے نزدیک قابل احترام ٹھہرتے ہیں۔
سانچ کے قارئین کرام !وطن عزیز پاکستان کوبرطانوی سامراج اور نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوئے 72 سال ہورہے ہیں ،تقریباََسوسالہ انگریز دور حکومت کی ترقی اور ظلم وستم کی ہزار ہا حقیقی کہانیاں لکھی اور سنائی جا چکی ہیں انگریز نے ہندوستان میں اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیئے تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی بنائے رکھی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہا دوسری جنگ عظیم( 1939ـ1945) کے بعد نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ممکن ہوا جنوبی ایشیا سے انگریز نے جانے سے پہلے ہندو سکھ اکٹھ جوڑ کیا اور مسلمانوں کے خلاف بھر پور طریقے سے وار کیا جس کے نتیجے میں 1947میں آگ و خون کی ندیاں پار کر کے مسلمان آزاد مسلم مملکت پاکستان پہنچے ،دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کا قیام کسی بڑے معجزے سے کم نہ تھا آزادی کا اعلان ہوتے ہی لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی نوجوانوں کو نیزوں ،برچھیوں سے شہید کیا گیا عمر رسیدہ مرد وخواتین کو بْری طرح تشدد کر کے معذور کیا گیا اْس وقت دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچے آج ا کیاسی ،پچاسی سال کی عمر میں ہیں موجودہ نسل کو اگر سوشل میڈیا اور دیگرجدید الیکٹرانک سرگرمیوں سے کچھ فرصت ملے تو وہ اِن بزرگوں سے وطن عزیز کی آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات کی آپ بیتیاں سْن سکتے ہیں۔
ہم سے پہلے دونسلوں نے تحریک پاکستان کے حوالہ سے بہت کچھ لکھا اور سْنایا ہے لیکن آج 2019میں 72ویں آزادی کی سالگرہ مناتے ہوئے ہمارا نوجوان اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کو کافی حد تک بْھلا چکا ہے کیونکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اورلیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جس طرح اقتدار کی رسہ کشی میں حکمرانوں نے دْشنام طرازی کا سلسلہ شروع کیا وہ تھمنے میں نہ آ سکا ، کبھی پاکستانی عوام نے جمہوریت کو بہترین نظام حکومت قرار دیا تو کبھی غیر سیاسی حکمرانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جس کی وجہ ملک میں معاشی مسائل اور کرپشن کا آہستہ آہستہ ہر شعبہ میں سرائیت کر جانا شامل ہے آج ہم وطن عزیز کی آزادی کی سالگرہ جس انداز سے منارہے ہیں اْسکا نظارہ ہمیں سڑکوں پر نوجوانوں کی جانب سے موٹر سائیکل کاسائلنسر نکال کر ون ویلنگ کرتے، بعض چوراہوں پر چندخواتین کے ساتھ ہلہ گلہ کرتے اور گانوں پر ڈانس کرتے دیکھا جا سکتا ہے بات یہاں ہی نہیں ٹھہرتی بلکہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ اَب چھوٹے شہروں میں بھی ہاتھوں میں پاکستانی پرچم پکڑ کر ایسے ایسے کرتب دیکھائے جاتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کو یہ وطن بغیر کسی قربانی و تگ دو کے حاصل ہوااور ہم وطن کی خاطرقربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت وسلام بھنگڑے ڈال کر دے رہے ہیں۔۔۔۔
وطن عزیز میں یوم آزادی کے موقع پر منعقد ہونے والے میوزیکل کنسرٹ اور ناچ گانے کی مخلوط تقاریب کر کے نوجوانوں خاص طور پر اْن پروگراموں میں شریک خواتین کو آنے والی نسل کی کس قسم کی تربیت کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں وطن سے محبت کے ملی نغمے اور شکرانے کے ترانے تو سمجھ میں آتے ہیں لیکن آزادی کی سالگرہ پر طوفان بدتمیزی اورواہیات اچھل کود۔۔۔الیکٹرانک میڈیا پر کسی بھی چینل کا “لوگو ” تو یکم اگست سے پاکستانی پرچم کے رنگ میں ڈھلا نظر آجاتا ہے لیکن زیادہ ترچینلز کی نشریات کسی بھی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرہ کی عکاسی کرتی نظر نہیں آتیں آئین پاکستان بناتے ہوئے اسلام کے سنہری اْصولوں کو ترجیح دی گئی وطن عزیز کا آئین قرآن وسنت کے مطابق بنایا گیا لیکن ہمارے ادارے اْسے حقیقی معنوں میں یہاں لاگو نہ کرسکے جن کی یہ ذمہ داری تھی یہاں تک کہ قومی زبان اردوآج تک دفتری زبان نہیں بن سکی، 1973کا متفقہ آئین بارہا معطل ہوتا رہا اور وقت کے مطابق اِس میں ترامیم بھی کی جاتی رہیں تمام تر قوانین کے باوجود زمینی حقائق کی رْو سے ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو آج بھولے بیٹھے ہیں۔