سڈنی (جیوڈیسک) آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں چاقو سے مسلح ایک شخص کو نصف درجن لوگوں کے ایک گروپ نے قابو کر کے پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس حملہ آور نے ایک اکتالیس سالہ خاتون کو چاقو سے وار کر کے زخمی بھی کر دیا تھا۔
آسٹریلوی شہر سڈنی کی پولیس کے مطابق مبینہ حملہ آور سڑک پر چاقو لہراتے ہوئے ‘اللہ اکبر‘ کے نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ مجھ کو گولی مار دی جائے۔ تاہم ابھی اس شخص کی ذہنی حالت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس کے مطابق پوچھ گچھ کے بعد ہی تعین کیا جائے گا کہ حملہ آور کی سیاسی اور مذہبی سوچ کیا تھی۔
آسٹریلوی پولیس کے مطابق جس مبینہ شخص کو پولیس کی تحویل میں دیا گیا ہے، وہ سڈنی کے ایک پرہجوم علاقے میں ایک بڑا چاقو لے کر لوگوں کو زخمی کرنے کی کوشش میں تھا۔ ملکی میڈیا پر ایسی فوٹیج بھی دکھائی گئی، جس میں حملہ آور کو ‘اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
سڈنی پولیس نے حملہ آور کی عمر اکیس برس بتائی ہے اور ممکنہ طور پر اس کے دماغ میں خلل ہے۔ پولیس کو اس مناسبت سے طبی ریکارڈ بھی مل گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے اس سے پہلے ایک خاتون کو ہلاک بھی کر دیا تھا اور اُس کے بعد ہی وہ چاقو سے حملے کرنے کی کوشش میں تھا۔ پولیس نے اس کے ہاتھوں زخمی ہونے والی دوسری خاتون کی حالت کو مستحکم قرار دیا ہے۔
آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ ابھی تک اس مبینہ ملزم کے کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے بھی کوئی معلومات دستیاب نہیں۔ پولیس کمشنر کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس شخص کے ذہن پر امریکا میں نسل پرستانہ حملے کے علاوہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے گئے حملوں کے اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔
اس چاقو بردار شخص کو نصف درجن کے قریب عام شہریوں نے مزید افراد پر حملے کرنے سے روکنے کی کامیاب کوشش کی۔ انہی افراد نے اس شخص کو گرا کر اپنی گرفت میں بھی لے لیا تھا۔ اس کو گرانے کے لیے ایک کرسی اور پلاسٹک کا ایک کریٹ استعمال کیے گئے۔
آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے سڈنی کے ان شہریوں کو ملکی ہیرو قرار دیا ہے، جنہوں نے اس چاقو بردار ملزم کو قابو کر کے پولیس کے حوالے کیا۔ موریسن نے بھی مبینہ ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ انہوں نے اس حملے سے خوف زدہ ہونے والے افراد اور زخمی ہونے والی خاتون کے ساتھ بھی ہمدردی کا اظہار کیا۔
سڈنی شہر کی ایک کنسلٹینسی فرم کے چار ملازمین نے اپنے دفتر میں سے اس مسلح شخص کو دیکھا اور پھر وہ بھاگتے ہوئے دفتر سے باہر نکل کر اس گروپ میں شامل ہو گئے جنہوں نے حملہ آور کو اپنے گھیرے میں لیا۔ ان میں ایک سے کولمبین نژاد الیکس رابرٹس، دو برطانوی شہری لی کوٹہبرٹ اور بھائی پال کے علاوہ لُوک نامی شخص خاص طور پر آگے آگے تھے۔
پال کوٹہبرٹ کا کہنا تھا کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ الیکس رابرٹس کے مطابق اُن کے ساتھیوں نے فوری طور پر دفتر سے نکل کر حملہ آور کا تعاقب کیا حالانکہ ہر طرف خوف پھیلا ہوا تھا۔