بھارت (جیوڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے جموں کشمیر میں حکومتی پابندیوں کے خلاف دائر کردہ درخواست پر کوئی فوری حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا اور سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
جسٹس ارون مشرا کی قیادت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا، ”صورتحال یکایک ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ کسی کو پتہ نہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو اپنا کام کرنے کے لیے موقع دینا ہو گا۔ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔‘‘
عدالت نے یہ ریمارکس حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے رہنما تحسین پونے والا کی درخواست کی سماعت کے دوران دیے۔ درخواست میں گزارش کی گئی ہے کہ جموں کشمیر میں نافذ کرفیو، مواصلاتی رابطوں کی معطلی اور ٹی وی چینلز کی بندش ختم کی جائے۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیرکی سیاسی قیادت کو رہا کیا جائے اور بھارتی حکومت کی طرف سے ملکی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے کے ونوگوپال نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کشمیر کی صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں توقع ہے کہ حالات جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کشمیر میں پابندیاں امن عامہ کی خاطر لگائی گئی ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اگست کی شب سے کرفیو جیسی صورتحال ہے۔ پچھلے نو دنوں سے حکام نے وادی کشمیر کے مواصلاتی رابطے منقطع کر رکھے ہیں اور کشمیر دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی مسلسل نظربند ہیں۔
ادھر بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیری میڈیا پر پابندیوں کے خلاف ایک الگ درخواست اخبار کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی جانب سے بھی دائر کی گئی ہے۔ بھارت میں خاتون صحافیوں کا پریس کلب آئی ڈبلیو پی سی اور ایڈیٹرز گلڈ نامی تنظیم بھی وادی کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر لگائی گئی پابندیوں پر گہری تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔ سرکردہ بھارتی صحافیوں نے مودی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جمہوری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میڈیا کو اس کا کام کرنے دیا جائے۔