مقبوضہ کشمیر کی تاریخی و آئینی حیثیت کو عالمی قوانین کے برخلاف تبدیل کئے جانے پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے اظہار یک جہتی کے لئے پُرامن مظاہرے ، احتجاج ، ریلیاں اور جلوس نکالے جارہے ہیں۔خاص طور پر پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹی بڑی احتجاجی ریلیوں و مظاہروں نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے ۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو و بنیادی انسانی حقوق سلب کئے جانے کے بعد مودی سرکار ،مقبوضہ کشمیر کی عوام کے ممکنہ احتجاج سے سخت خوف زدہ نظر آتی ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نماز جمعہ کے علاوہ عیدالاضحی کی اجتماعی نماز اور سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے روکے جانے پر امت مسلمہ میں سخت بے چینی پائی گئی اور مودی سرکار کے انتہا پسند اقدامات کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔پاکستان نے جہاں14 اگست یوم آزادی پاکستان کو کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر بھرپور انداز میں منایا تو بھارتی حکومتی اقدامات کے خلاف 15اگست کو ‘ یوم سیاہ’ منا کر ہندو انتہا پسند ریاست کے عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے دنیا کا ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش کی۔یہ امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ جہاں ان کے حکمرانوں میں باہمی اتحاد و اخوت کی کمی ہے تو دوسری جانب ملت اسلامیہ کے خلاف ظلم پر اپنے فروعی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔فروعی مفادات کی وجہ سے مسلم امہ اس وقت ناگفتہ بے حالات کا شکار و تیزی سے روبہ زوال ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کی مسلمان عوام میں اپنے مسلم بھائی ، بہن کی تکلیف کا درد پایا جاتا ہے لیکن مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر فروعی پیمانے طے کئے جانے پر پوری امہ کو اجتماعی نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر اہم ممالک سے رابطے کئے اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال اور خطے میں مضمرات سے بھی آگاہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے چین کو اعتماد میں لئے جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے معاملے کو 50برس بعد پھر سلامتی کونسل میں اٹھایا گیا۔کیونکہ بھارتی آئینی جارحیت کے سبب چین کی سرحدوں و لداخ پر سخت ردعمل دیا گیا تھا اس لئے پاکستان نے ان افوہوںکو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں پروپیگنڈا کیا جارہا تھا کہ چین پاکستان کے ساتھ نہیں دے گا ۔پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایک اہم پیش رفت حاصل کرلی ہے کہ سلامتی کونسل کے اہم رکن چین کی سہولت سے بھارتی آئینی جارحیت کو سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا جائے گا۔
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے پاس اس وقت ویٹوپاور موجود ہے ۔ تاہم موجودہ صورتحال کچھ اس طرح بن گئی تھی کہ بھارتی آئینی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجوں و مظاہروں کے بعد امریکا یا روس کو اجلاس طلب ہی کرنا پڑا۔ پاکستان اس وقت امریکا کے ساتھ افغانستا ن میں قیام امن کے لئے ایک اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ اگر بھارت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وادی نیلم سمیت لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آئینی جارحیت نہ کرتا تو یقینی طور پر دوحہ میں افغا ن طالبا ن اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا 8 واں دور حسب توقع کامیاب رہتا ، لیکن بھارتی اقدام نے پاکستان کی توجہ افغان امن حل سے ہٹانے کے لئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک ایسی کاروائی کردی جس کی وجہ سے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان اہم مذاکراتی عمل شروع ہی نہیں ہوسکا۔اس بات کی کافی امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان و افغان طالبان کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کے بعدامریکا افواج کے انخلا سمیت سیاسی روٹ میپ کی تیاری اور کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان کو مذاکرات کرانے کی کوشش نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی تھی ، لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ایسی آگ لگا دی ہے جس سے پاکستان کی سلامتی و بقا کو شدید خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔
عوام کے شدید ردعمل کے بعد پاکستان کے لئے فی الوقت ممکن نہیں ہے کہ اس کے گھر میں تو دشمن آگ لگا رہا ہو اور وہ دوسرے ملک کے مسئلے کے حل کرانے میں مشغول ہو۔ امریکا کو اس اہم نکتے کو سمجھنا چاہیے تھا کہ ثالثی کی پیش کش کے بعد بھارت پر دبائو بڑھا کر مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا’ مثبت’ کردار ادا کرتا ۔ کیونکہ امریکا خطے میں یکطرفہ طور پر بھارت کو اُس کے مینڈیٹ سے زیادہ مراعات دے رہا ہے اور افغان تنازع حل میں براہ راست فریق نہ ہونے کے باوجود اپنے خصوصی معاون زلمے خلیل زاد کو باقاعدہ بھارت یاترا بھیجتا ہے۔ لیکن امریکا نے جنوبی ایشیا کے سب سے حساس مسئلے پر مکمل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ان غیر مصدقہ اطلاعات نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر جو آئینی جارحیت کی ہے وہ اسرائیل اور امریکا کو اعتماد لئے بغیر نہیں کرسکتا تھا ۔ گوکہ امریکا نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن جس غیر سنجیدگی کا مظاہرہ امریکا کی جانب سے آیا ہے وہ مزیدشکوک و شبہات میں اضافہ کررہے ہیں ۔ چین کے تعاون سے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے معاملے کو سلامتی کونسل میں لے جا کر اہم سفارتی کامیابی تو حاصل کرچکا ہے۔
سلامتی کونسل کا دوسرا سب سے اہم کردار روس کا ہے ۔ روس کے لئے چین کے مفادات خصوصی ترجیح رکھتے ہیں ، خاص طور پر امریکی و یورپی بلاک کے مقابل شنگھائی تعاون تنظیم جگہ بنا رہی ہے ۔ اس میںچین و روس کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ روس کے لئے بھارت اسلحہ کا بڑا خریدار و اتحادی ضرور ہے ، لیکن ماضی کے مقابلے میں بھارت کا جھکائو امریکا کی جانب کا فی ہوچکا ہے۔ بھارت بلاشبہ د نیا کے ایک بہت بڑی تجارتی مارکیٹ ہے اور کوئی عالمی طاقت نہیں چاہے گی کہ وہ بھارت کو ناراض کرکے ایک بڑی تجارتی منڈی سے متاثرہوجائے۔ روس کے بھارت کے ساتھ دفاعی نوعیت کے کئی معاہدے ، جس میں بطور خاص ائیر ڈیفنس سسٹم ایس 400کی خریداری بھی شامل ہے ۔ یہ معاہدے روس کے لئے مقبوضہ کشمیر سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ روس اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کے اثرات زائل ضرور ہو رہے ہیں تاہم اس کدورت اور افغان جنگ کی شکست میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے روس کا پاکستان کی جانب مکمل جھکائو کا یقین نہیں کیا جاسکتا ۔روس ، امریکا کے خلاف کسی بھی قرار داد کا حصہ بن سکتا ہے ، امریکا کی کسی بھی قرار داد کو موجودہ حالات کے تناظر میں ویٹو کرسکتا ہے لیکن پاک، بھارت تنازع میں روس عموماََ بھارت کا ساتھ دیتا آیاہے۔ شائد یہی زعم بھارت کی جارحیت کا سب سے اہم سبب بھی ہے کہ امریکا ، روس بھارتی منڈی سے مفادات کا ٹکرائو نہیں چاہتے، گوکہ بھارت امریکا کے اشارے پر سست روی سے عمل پیرا ہے اور پرکشش مراعات اٹھا رہا ہے لیکن بھارت نے روس کے دامن کو بھی پکڑ کر رکھا ہے اور روس ، خطے میں امریکی رسوخ کو مزید بڑھانے کے بجائے امریکی مفادات کو ضرب پہنچانا ضروری سمجھتا ہے لیکن یہاں بھارت دو عالمی قوتوں کے ساتھ چانکیہ سیاست کا کھیل، کھیل رہا ہے اور بڑی عالمی تجارتی منڈی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ہی عالمی قوتوں کو تجارتی بلیک میل کر رہا ہے۔
پاکستان بظاہر اس وقت اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ امریکا و روس کے افغان امن معاملات میں مزید مداخلت سے انکار کرسکے ۔ کیونکہ پاکستان کے سامنے اس وقت ایک اہم چیلنج ایف اے ٹی ایف کا بھی ہے جس میں پاکستان کو ہر صورت بلیک لسٹ میں جانے سے روکنے کے لئے امریکا و روس سمیت عالمی طاقتوں کی حمایت کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ آئی ایم ایف واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اگر پاکستان بلیک لسٹ میں جاتا ہے تو عالمی معاہدوں و ضمانتوںمیں پاکستان پر سخت دبائو بڑھنے سے پاکستانی پوزیشن خراب ہوسکتی ہے ۔پاکستان منی لانڈرنگ اور کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کاروائی سمیت ہر اُس مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے جو ایف ٹی اے ایف چاہتی ہے ، لیکن اس کے باوجود پاکستانی اقدامات سے عالمی تنظیم ایف اے ٹی ایف سمیت عالمی طاقتیں خود کومطمئن ظاہر نہیں کرانا چاہتی ۔ وہ ریاست کی کمزور مالی معیشت، سیاسی بحران و شمال مغربی اور مشرقی سرحدوں پر درپیش مشکلات میں گھیرے پاکستان کو ” ڈومور”کے تحت مزید ‘استعمال’ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر آتے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کے تیسرے اہم فریق برطانیہ کا پیدا کردہ ہے لیکن ، برطانیہ اس مسئلے کو فلسطین کے مسئلے کے طرح مزید الجھانے میں دلچسپی رکھتا رہاہے۔ اسرائیل کے فلسطین پر جابرانہ قبضے و یہودی غیر قانونی آبادیوںسمیت نسل پرستی جیسے معاملات کے بانی برطانیہ، پاکستان بننے کے ‘سزا ‘ پوری قوم کو دینا چاہتا ہے ۔ تقسیم ہندوستان میں جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کو کرم خوردہ پاکستان دیا اور پاکستان کے حقوق پر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اہم معالات کو ادھوراچھوڑ کر خطے میں نہ ختم ہونے والے مسائل کا ذمے دار جب سن/48 47ء میں مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کراسکا تو 70 برسوں بعد برطانیہ سے امید نہیں کی کہ مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کروانے کے لئے اپنا اثر رسوخ امریکا و روس پر استعمال کرے۔واضح رہے کہ ویٹو کے لامحدود اختیار نے اس ادارے کے وقار کو بری طرح مجروح کر دیا ہے اور یہ بڑی طاقتوں کا آلہ کار بن گیا ہے، روس نے 123 مرتبہ امریکا نے 82 مرتبہ، برطانیہ نے 32 مرتبہ، فرانس نے 18 مرتبہ اور چین نے قدرے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف 6 مرتبہ اس حق کو استعمال کیا ہے۔ روس اور امریکا نے اس حق کو نہایت ہی غیر ذمہ داری سے بار بار استعمال کیا ہے۔ ان کی اسی غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین آج تک حل طلب ہیں۔ تیسری دنیا خاص کر عالم اسلام کی اس میں کوئی مستقل نمائندگی نہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینے کی اقوام متحدہ کی قرارداد کو 70سال مکمل ہو گئے لیکن بھارتی درندہ صفت فورسز کے ظلم سہتے کشمیری عوام آج بھی آزادی کی راہ تکتے نظر آتے ہیں۔اقوام متحدہ کی قرارداد کو 70سال مکمل ہونے کے باوجود عالمی برادری اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت مقبوضہ وادی میں ریفرنڈم نہیں کراسکی۔ مسئلہ کشمیر پر کشمیری ایک کے بعد ایک نسل کھو رہے ہیں۔5 جنوری 1949 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا تھا کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے اپنا سیاسی مستقبل پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ وابستہ کرسکتے ہیں لیکن ستر سال گزر جانے کے بعد آج بھی اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیمیں بالکل خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں۔آج جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اس کا تصور خود بھارت نواز سیاسی و غیر سیاسی قوتوں نے بھی کیا تھا ۔ بھارت میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکمراں پسند جماعت کے آمرانہ اقدام کے خلاف سخت ردعمل آیا ہے ، بھارت میں رہنے والی مذہبی اقلیتیں خود کو مزید غیر محفوظ سمجھ رہی ہے ۔ بالخصوص مسلمانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتاہے ۔ ایک بھیانک خوف بھارت میں رہنے والی مسلمانوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس وقت بھارت کے مسلمانوں کو یقینی طور پر ایک جناح کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت بھارت میں سن 1857کے غدر جیسے حالات پیدا ہوچکے ہیں ، مسلمانوں کو چھوتے درجے کا شہری بنا دیا ہے ۔ انتہا پسندوں کی جانب سے منظم منصوبہ کے تحت پُر تشدد ویڈیوز وائرل کراکر بزدل ٹڈی دل خود کو بہادر و طاقت ور ثابت کرنے کے لئے نہتے مسلمان پر جھنڈ کے جھنڈ کے ساتھ حملہ کرتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا میں وائرل بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا منفی پروپیگنڈا بڑی تیزی سے مسلمانوں میں خوف پیدا کررہا ہے اور انہیں مزید تنہا کرکے دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں تادم تحریر کرفیو ہے ۔ اس بات کے خدشات یقینی ہیں کہ بھارت جب بھی کرفیو اٹھائے گا ایک مقبوضہ کشمیر میں ایک اسی مزاحمتی تحریک اٹھے گی جو بھارت سے علیحدہ ہونے والی تحریکوں پر بھی براہ راست اثر پزیر ہوگی ۔ بھارت بزور طاقت کشمیریوں کو مزاحمت سے روکنے کی کوشش کررہا ہے لیکن ڈھائی لاکھ سے زائد شہادتوں کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت و آزادی کو کم ودبایا نہیں جاسکا ۔کشمیریوں کی پُر امن تحریک کو پُر تشدد بنانے کے لئے بھارت کی جانب سے جان بوجھ کر لاپرواہی برتے جانے کی بھی امید ہے تاکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو شدت پسند و دہشت گردی سے جوڑا جاسکے ۔بھارت نے سوشل میڈیا پر اس قسم کی ویڈیو ز بھی وائرل کرانا شروع کردی ہیں تاکہ عالمی رائے عامہ متاثر کیا جاسکے ۔ اس ضمن میں پاکستان کو نہایت احتیاط و پوری تیاری کے ساتھ سلامتی کونسل میں مقدمہ کشمیرکے اگلے قدم کو اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ عالمی قوتوں کی بھارت کے ساتھ فروعی مفادات جڑے ہیں ۔ لہذا بھارت آج بھی سونے کا انڈا دینے والی مرغی کہلاتی ہے اور عالمی طاقتیں انڈیا کو تجارتی طور پر مسخر کرنے کے لئے ایک بار پھر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی تجارتی جنگ میں آمنے سامنے آچکے ہیں ، اِس وقت برطانیہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ہندوستان کے ادھورے ایجنڈے اور مسلمانوں کوکرم خوردہ پاکستان دے کر اُس نے جو جنگی جرائم کئے ہیں اور25 لاکھ سے زائد انسان برطانیہ کے تجارتی مفادات کے سبب ہلاک ہوئے۔ اس جنگی جرم پر کسی بھی عالمی قوت نے بات چھیڑنے کی کوشش نہیں کی ۔ جرمنی کی جانب سے ہولو کاسٹ کے نام پر یہودیوں کو بھاری معاوضے ادا کرائے گئے ، عراق سے اب تک خون نچوڑا جارہا ہے اس طرح کی کئی مثالیں ہیں لیکن قیام پاکستان کے وقت جو جنگی جرائم ہوئے وہ گاندھی کے قتل سے دھلے نہیں جاسکتے ۔ اکھنڈ بھارت کے سپنے کو پورا کرنے کے لئے جو کچھ کیا جارہا ہے ، ہزاروں کشمیریوں کو کرفیو کے دوران غائب کرکے جو ماحول پیدا کیا جارہا ہے اس کے اثرات سے صرف پاکستان متاثر نہیں ہوگا بلکہ افغانستان سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ستمبر میں وزیر اعظم کا اقوام متحدہ کے دورے کی اہمیت اپنی جگہہے ۔ تاہم سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ سلسلہ آگے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر کے حل کی راہ بھی متعین کردے گا یا نہیں، یا پھر عالمی قوتیں خطے میں امن چاہتی ہیں یا جنگ ان کی ترجیحات ہیں۔