افغانستان (جیوڈیسک) کابل میں ایک خودکش حملہ آور نے ہفتے کی شب شادی کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیا۔ طالبان نے حملے ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان خود کو االزامات سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔
یہ حملہ مغربی کابل میں دارلامان روڈ پر ہوا، جہاں زیادہ تر شیعہ ہزارہ آبادی رہتی ہیں۔ حکام کے مطابق، خودکش حملہ آور نے ہفتے کی شب ساڑھے دس بجے کے بعد دھماکے سے خود کو اڑایا۔ عینی شاہدین کے مطابق، اس وقت وہاں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
افغان طالبان نے حملے ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن اتوار کے روز ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں افغان صدر اشرف غنی نے اس تازہ حملے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ طالبان خود کو االزامات سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ وہ دہشتگروں کو پلیٹ فارم مہیا کرتے رہے ہیں۔
ہفتے کی شب واٹس ایپ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اس طرح کے حملوں نے خواتین اور بچوں کا نشانہ بنانا بلاجواز ہے اور وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ افغانستان میں جاری اٹھارہ برس کی لڑائی میں طالبان نے لاتعداد بار ایسے حملوں کی ذمہ داری لی ہے جن میں عام افغان شہری مارے جاتے رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں کابل سمیت افغانستان میں کئی حملوں کی ذمہ داری داعش بھی لیتی رہی ہے۔
کابل میں صرف اس سال کا یہ سترواں حملہ ہے۔ افغانستان میں پرتشدد واقعات ایک ایسے وقت میں جاری ہیں جب افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ قطر میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے آٹھ دور مکمل ہو چکے ہیں۔
اسی دوران، افغانستان کے شمالی صوبے بلخ سے اطلاعات ہیں کہ اتوار کی صبح سڑک کنارے ایک بم دھماکے میں کم از کم دس لوگ مارے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ دھماکہ علی الصبح تُرکمانستان کے ساتھ واقع سرحدی ضلع دولت آباد میں پیش آیا جب مزار شریف سے آتی ہوئی ایک گاڑی اس کا نشانہ بنی۔