سری نگر (جیوڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مظاہروں کے بعد حکام نے دوبارہ کرفیو میں سختی کر دی ہے۔ حکام کے مطابق اب تک چار ہزار سے زائد افراد حراست میں لیے جا چکے ہیں۔
بھارتی حکام کی جانب سے جموں و کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کے بعد اس متنازعہ علاقے میں کرفیو میں دوبارہ سے سختی کر دی گئی ہے۔ پانچ اگست کے روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے قریب دو ہفتوں بعد اب کئی علاقوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا رہی تھی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اتوار کے روز سری نگر کے درجنوں علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں کم از کم آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے۔
اے ایف پی ہی سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے ایک اہلکار نے بتایا کیا کہ پیر کے روز مزید ٹیلی فون ایکسچینجز بحال کر دی جائیں گی۔ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی کہا کہ پیر کے روز جموں و کشمیر کے کچھ علاقوں میں اسکول بھی کھول دیے جائیں گے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے کئی بھارتی حکومتی ذرائع سے تصدیق کر کے لکھا ہے کہ جموں و کشمیر میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کے خوف کے باعث نئی دہلی حکام نے ہزاروں کشمیری شہریوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ایک میجسٹریٹ نے یہ بھی بتایا کہ کشمیری شہریوں کو ‘پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس متنازعہ قانون کے تحت بھارتی سکیورٹی اہلکار کسی الزام کے بغیر دو سال تک کی مدت تک کسی بھی شہری کو حراست میں رکھ سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے حکومتی ترجمان روہت کنسال کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس گرفتار کردہ افراد کی تعداد کے بارے میں کوئی مرکزی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ تاہم فرانسیسی نیوز ایجنسی کے مطابق سینکڑوں اہم سیاسی شخصیات سمیت چھ ہزار سے زائد کشمیری زیر حراست ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی جیلوں میں گنجائش ختم ہو جانے کے باعث زیادہ تر افراد کو ملک کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ صرف اس کے زیر انتظام کشمیر کے بارے میں بات ہو گی۔ یہ بات انہوں نے آج بھارتی ریاست ہریانہ کے صوبائی انتخابات کی تیاریوں کے لیے منعقدہ اپنی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بی جے پی کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا، ”پاکستان کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات کریں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بات تبھی ہو گی جب تک پاکستان دہشت گردی ختم نہیں کرتا۔ اس کے بعد بھی جو بات چیت ہو گی وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ہو گی۔‘‘