اللہ کریم رب ذوالجلال کی بے پناہ حمد وثناء اور وجہ تخلیق کائنات جناب محمد رسول اللہۖ کی ذات پر درودوسلام کے نذرانے پیش کرتے ہوئے صد شکر کہ اس دھرتی ماں کو فرنگی کے تسلط سے آزاد ہوئے آج بہتر سال ہوگئے ملکی حالات کچھ بھی ہوں ارض وطن ماں کی گود ہوتی ہے اور ہم جتنا شکر کریں اس مالک الملک کا جس نے ہمیں یہ ملک عطا کیا کم ہے دنیا میں مسلم ممالک اور بھی ہیں برما فلسطین کشمیر اور بوسنیا کے حالات سے اس انٹر نیٹ اور تیز ترین میڈیا کے دور میں کون واقف نہیں صد شکر کہ ہم ایک پر امن اور اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست میں آزاد جی رہے ہیں اس مضمون میں ہم نے ریاست مدینہ کے تصور اور اپنے حکمرانوں کے طرز حکمرانی کا ایک تقابلی جائزہ لینا ہے بات سچی ہوتو کڑوی بھی ہوتی ہے اور جھوٹ کو چاہے جتنی بھی ملمع کاری سے سجا لیا جائے وہ جھوٹ ہی رہتا ہے معزز قارئین کرام ہمارے اس ملک کو جسے اب اسلامی لکھتے ہوئے شرم آتی ہے جمہوریہ اسے بنایا ہی نہ گیا اور پاکستان تو اللہ کے فضل سے پاکستان ہے اس بات سے ہر صاحب احساس واقف ہے کہ ہمارے اسلاف نے یہ خطہ ارضی بے شمار قربانیوں کے عوض ایک طویل جدو جہد کے بعد حاصل کیا ان قربانیوں کا بیان کیا جائے تو ایک الگ کتاب بن جائیگی مختصر یہ کہ ہماری نسل نو اس بات سے شاید واقف نہ ہو کہ اس ریاست کے حصول کی جدو جہد میں کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجڑے کتنے بچے یتیم ہوئے کتنی پاک دامن دوشیزائوں کو بے دردی سے بے آبرو کرکے نیزوں کی نوک پر رکھا گیا اور جانے کتنے جوان بھائیوں نے یہ منظر اپنے کٹے ہوئے بازوئوں کے ساتھ زخمی آنکھوں سے خود دیکھے اور جانے کتنے لوگوں نے راہ ہجرت میں بلوائیوں کے ڈر سے اپنی جوان بیٹیوں کو اپنے ہی ہاتھوں گلے دبا کر بے گوروکفن ریت میں چھپادیا اور خود حسرت کی تصویر بن کر مہاجرین کے خیموں میں پہنچے ان کے کانوں میں وہ نعرہ مستانہ پہنچا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ وہ سب صعوبتیں جھیل کر بھی اس ریاست کے باسی بننے آئے جو صرف کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی معزز قارئین یہاں میرے الفاظ شاید آج کی اشرافیہ کو زہر لگتے ہیں کہ دراصل یہی بہت بڑا دھوکہ ہوا ہمارے اسلاف کے ساتھ اس ریاست کو حاصل کرتے وقت اس ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا گیا جسے میرے اور آپکے بلکہ پوری کائنات کے عظیم محسن جناب محمد کریم ۖ نے چودہ سو سال قبل ہجرت مدینہ کے وقت آباد فرمائی تھی۔
جب ہر انصار نے اپنے مہاجر بھائی کو ایسے گلے لگایا کہ اپنی ساری منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے اسے آدھا اسی وقت دے دیا بلکہ آپ حیران ہو نگے مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ انصار میں سے اکثریت کے پاس دو یا دو سے ذیادہ ازواج تھیں انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں سے اتنا تک کہا کہ میں ایک بیوی کو طلاق دیتا ہوں اور تم اسے عقد میں لے لینا مگر مہاجرین کو آج کے طبقہ اشرافیہ کے افراد نہ تھے بلکہ وہ بارگاہ رسالت مآب کے پروانے تھے انہوں نے یہ کہہ انکار کر دیا کہ یہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں مگر ہمارے ساتھ کیا ہوا ہمارے وقت کے ناخدائوں نے مہاجرین کے کیمپوں سے جوان لڑکیاں غائب کیں خیموں کی چھت اور دال روٹی کے عوض جوان بیٹیوں کی عصمت کے سودے ہوئے اگر میری بات کا یقین نہ ہو تو کسی بوڑھے مہاجر سے پوچھ لیں جس نے ایک دو راتیں مہاجرین کے کیمپ میں بسر کی ہوں ایسا کون کررہا تھا ؟ وہ مفاد پرست ٹولہ جسے صرف ریاست اس لیے درکار تھی جس میں وہ رعایا کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھ سکیں اور کوئی دوسرا انکے اقتدار میں شریک بھی نہ ہو اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لیے انہوں نے وہ سب کیا جو وہ پوری منصوبہ بندی سے کررہے تھے بانی ء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو قتل کیا گیا اور اس انداز سے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی یہیں سے ہماری بد قسمتی کا عروج شروع ہوا اور وہ مفاد پرست ٹولہ ملک پر ایسے قابض ہوگیا جیسے باپ داد ا کی جاگیر ہو کبھی کسی سیاسی رنگ میں کبھی کسی ڈکٹیٹر کی شکل میں وہی گنتی کے چند خاندان ملک پر آج تک کسی نہ کسی طرح قابض ہی ہے اور بد قسمتی سے ملک کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے بجائے لبرل ریاست بنا کر رکھ دیا ہے جہاں اسلامی قوانین تو درکنار اسلامی اقدار کو کھلم کھلا پامال کیا جارہا ہے ہمارے موجودہ حکمران نے بھولی عوام کو ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ دے کر اقتدار تو حاصل کرلیا مگر ایک ہی سال میں عوام کا کچومر نکال دیا اور اسکی ٹیم کے افراد وزیر سائنس نے برملا کہا ہے کہ پاکستان بنانے والے کوئی مولوی تو نہیں تھے وہ لبرل تھے سینڈ وچز کھاتے تھے شراب پیتے تھے تھری پیس سوٹ پہنتے تھے وغیرہ وغیرہ مگر اس میں ان بیچاروں کا قصور نہیں وہ خود اسی ماحول کی پیداوار ہیں اور تاریخ سے بالخصوص امت مسلّمہ کی تاریخ سے توانہیں دور دور کا بھی تعلق نہیں وہ اگر کسی عالم دین سے بھی ملے تو وہ بھی مولانا ڈیزل جیسے آلم کو ملے جسے تمام مسائل کا حل اسلام کی بجائے اسلام آباد میں نظر آتا ہے۔
اس بار یوم آزادی اور عید الاضحی ایک ہی موقع پر ہیں ادھر سے بھارت روائیتی بے حسی اور انسان دشمنی کا جو ایک نیا باب کھول دیا ہے اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے حکمرانوں کا امتحان ہے صرف یوم آزادی کا لوگو یا سلوگن تبدیل کر دینے سے یا ملائووں کی دعائوں سے کشمیر کا مسئلہ ہوتا تو ہم تو ہوش سنبھالنے سے آج تک بڑے بڑے نامور علامء کی دعا سنتے آئے ہیں کہ یا اللہ کشمیری مسلمانوں پر رحم فرما دشمن کو نیست ونابود فرما بے شک اللہ تو قادر ہے مگر کیا ہم اس قابل رہ گئے ہیں کہ ہماری دعائوں میں اثر ہو آج ہم جس جگہ کھڑے ہیں اسے ریاست مدینہ سے تقابلی جائزہ لیں حضور کریم ۖ نے جو ریاست اپنی امت کو دی مانا کہ اس میں بجلی نہ تھی مگر آج ان برقی قمقموں نے ہمیں اس قدر اندھا کر دیا کہ ہمیں اپنا سگا بھائی بھوکا ننگا نظر نہیں آتا اس ریاست مدینہ میں لا سلکی نظام نہ تھا جو آج کی سائنس نے ہمیں دیا جس سے ہم ایک بٹن دبا کر سات سمندر پار بیٹھے لوگوں سے بات توکر لیتے ہیں مگر خدا کی قسم ہم اس قدر بہرے ہوگئے کہ کس حاجت مند کی فریاد ہمارے کان سنتے ہی نہیں۔
آج کے حکمرانو ں نے عورتوں کیلئے یونیورسٹیاں بنا دیں اسمبلیوں میں جگہ دے دی مگر ان کے سر سے حیاء کی وہ چادر چھین لی جو آقا نامدا ر ۖ نے انہیں عطا کی آج کی عورت کو گھر کی ملکہ بنانے کی بجائے اشتہارات کی زینت بنا دیا گیا ایک شیونگ بلیڈ کے اشتہار سے مردانہ کمزوری کی ادویات کے اشتہاروں گاڑیوں حتیٰ کہ ضروریات زندگی کی ہر بکائو چیز پرعورت کی نیم عریاں تصویر لگا کر ،ٹی وی ڈراموں میں اسے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا سبق سکھانا قندیل بلوچ بنا کر پھر اس کے قتل کے فتوے دینا اور پھر اسے مظلوم ثابت کر کے انصاف مانگنا یہ ہے آج کی عورت کی مکمل کہانی اور تم نے جواں نسل کو ڈگریاں لینے کیلئے بڑے بڑے ادارے تو بنا دیے مگر اصحاب صفّہ جیسا ایک طالب علم بھی پیدا نہ کر سکے تمہاری نظر میں اگر یہی ریاست مدینہ ہے تو پھر خدا کیلئے ہمیں اپنا دیا ہوا وہ سب کچھ واپس لے لوجو ہمارے پاس پہلے نہیں تھا اور ہمیں وہ پاکستان دے دو جس کے خواب دیکھ کر ہمارے اسلاف اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں چلے آئے تھے کہ پاکستان ایسا ملک ہو جہاں اللہ اور اس کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق حکمرانی ہو کسی بھوکے کو روٹی کے حصول کیلئے اپنی عزت نہ بیچنا پڑے اور کوئی بچے برائے فروخت کا پلے کارڈ لیے مال روڈ پر نہ بیٹھا ہو بھلے روکھی سوکھی روٹی ہو مگر چادر چاردیواری کا تحفظ میسر ہو کوئی وڈیرہ کسی مزارعے کی بیوی کو اپنی لونڈی نہ سمجھے تو پھر سمجھیں کہ ہم آزاد ہیں اور آزادی کا جشن منائیں ورنہ ہم کل بھی محکوم تھے آج بھی محکوم ہیں اور گوروں کی غلامی سے بھی بد تر زندگی میں جی رہے ہیں والسلام۔