نئی دہلی (جیوڈیسک) کشمیر میں بھارتی پابندیوں پر تنقید کرنے والی سیاسی کارکن شہلا رشید کو بھارت میں ملک دشمن پکارا جا رہا ہے اور مودی حکومت کے حامی ان کی گرفتاری کا مطالبہ کر ہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بعض لوگ ان کی حمایت میں بھی بول رہے ہیں۔
شہلا رشید نئی دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ وہ ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت جموں کشمیر پیپلز موومنٹ سے وابستہ ہیں۔ اس پارٹی کے سربراہ شاہ فیصل ہیں، جنہیں بھارتی حکام نے حال ہی میں حراست میں لے کر نطر بند کردیا ہے۔
شہلا رشید کو کشمیر کی حالیہ صورتحال پر اپنی کچھ ٹوئٹس کی وجہ سے بھارت میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کشمیر میں لوگوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا،” بھارتی فوجی رات کو گھروں میں گھستے ہیں، لڑکوں کو زبردستی اٹھا لیتے ہیں، گھر کا سامان تہنس نہس کرتے ہیں، راشن اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا، ’’شوپیاں میں چار آدمیوں کو پوچھ گچھ (تشدد) کے لیے فوجی کیمپ لے جایا گیا جہاں ایک مائیک کو قریب رکھا گیا تاکہ علاقے کے لوگ ان کی چیخیں سن سکیں۔ اس نے پورے علاقے میں خوف کی فضا قائم کر دی۔‘‘
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا، ’’آخر میں کشمیر میں جو چیز دم توڑ گئی وہ بھارت کی جمہوریت ہے۔ ہر چیز کو پاکستان کی طرف نہ لے جائیں۔ ہم کشمیری صرف اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ بھارتی حکومت کے اقدامات اسے عمران خان کے مقابلے میں منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔‘‘
شہلا رشید کے خلاف نہ صرف بھارتی میڈیا میں مہم چلائی جا رہی ہے بلکہ بی جے پی کے کئی سیاست دانوں نے تو انہیں ملک دشمن قرار دے دیا ہے۔ نیوز ایجنسی اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل الاکھ الوک نے شہلا رشید کے خلاف ایک شکایت درج کرائی ہے اوربھارتی فوج اور حکومت کے خلاف ‘جھوٹی خبروں‘ کی اشاعت پر ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹوئٹر پر ان کے خلاف ‘اریسٹ شہلا رشید‘ کا مطالبہ ٹرینڈ کرتا رہا۔
ایسے میں بھارتی سول سوسائٹی سے وابستہ لوگ شہلا رشید کی حمایت میں نکل آئے ہیں۔ ایک بھارتی صارف پرشانتو نے ٹویٹ میں لکھا، ’’بی جے پی کو کیوں شہلا رشید سے ڈر لگتا ہے ؟ وہ کشمیری ہے، مسلمان ہے، عورت ہے اور پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ یہ بہت خطرناک امتزاج ہے۔‘‘
کویتا کرشن نامی صحافی نے ٹویٹ میں لکھا، ’’اس گورنر کی گرفتاری کا کوئی مطالبہ نہیں جو کشمیریوں کے قتل عام کی بات کر رہا ہے لیکن اس عورت کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کر رہی ہے۔‘‘