کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے پندرہ اگست کو ملکی یوم آزادی کے موقع پر کشمیر کے تنازعے سے متعلق ایک مظاہرے کے ’پرتشدد‘ ہو جانے پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
نئی دہلی سے بدھ اکیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے آج جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم مودی نے منگل بیس اگست کی شام اپنے برطانوی ہم منصب بورس جانسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں پندرہ اگست کو برطانوی دارالحکومت میں ہونے والے مظاہرے کے پرتشدد ہو جانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے اس مظاہرے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے، جنہوں نے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ یہ مظاہرین نئی دہلی میں مودی حکومت کے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
اس مظاہرے کے شرکاء کے بارے میں وزیر اعظم مودی کے حامیوں اور بھارت میں حکمران ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان نے یہ الزام لگایا تھا کہ مظاہرین نے چند بھارتی خواتین اور بچوں پر انڈے اور بوتلیں بھی پھینکی تھیں اور موقع پر موجود برطانوی اہلکار انہیں روکنے میں ناکام رہے تھے۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے مطابق اس پس منظر میں نریندر مودی نے اپنے برطانوی ہم منصب بورس جانسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا کہ ایسے مظاہروں کے پیچھے وہ مخصوص مفادات ہیں، جو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پرتشدد راستے استعمال کرتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے اس بارے میں اپنے بیان میں لندن میں ‘مظاہرین‘ کے بجائے ایک ‘بڑے مشتعل ہجوم‘ کے الفاظ استعمال کیے اور کہا، ”اس تناظر میں وزیر اعظم مودی نے اپنی گفتگو میں اس تشدد اور توڑ پھوڑ کا حوالہ دیا، جس کا لندن میں بھارت کے یوم آزادی کے دن بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے ایک بڑا مشتعل ہجوم مرتکب ہوا تھا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گہا ہے، ”وزیر اعظم جانسن نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ بھارتی ہائی کمیشن، اس کے اہلکاروں اور مہمانوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
اس بارے میں لندن پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے اس بدنظمی میں ملوث ہونے کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کر لیا تھا، جنہوں نے پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور جن کے پاس ہتھیار بھی تھے۔ پولیس نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ایک یا ایک سے زائد ہتھیار کس قسم کے تھے۔