اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ایران ،،، عراق، یمن، شام اور لبنان میں اسرائیل کے خلاف اڈے قائم کر رہا ہے۔
انہوں نے یہ بات روسی زبان میں نشریات پیش کرنے والے اسرائیلی ٹی وی “چینل 9” کو ایک انٹرویو میں کہی۔ جمعرات کے روز نشر ہونے والے انٹرویو میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل ،،، عراق میں اور دیگر کئی محاذوں پر ایران کے خلاف کام کر رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سیکورٹی فورسز کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ ایران کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے جو کچھ بھی ضروری ہو وہ کیا جائے۔
نیتن یاہو کا یہ بیان ایران نواز ملیشیا الحشد الشعبی کے اس الزام کے بعد سامنے آیا ہے کہ اسرائیل نے عراق میں مذکورہ ملیشیا کے کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے۔
اس سلسلے میں آخری کارروائی بغداد کے شمال میں صوبے صلاح الدین میں بلد کے فضائی اڈے پر عراقی حزب اللہ (الحشد الشعبی میں شامل ایک گروپ) کے ساز و سامان کے گودام میں ہونے والا دھماکا تھا۔
الحشد الشعبی ملیشیا کے نائب سربراہ ابو مہدی انجینئر نے اپنے مراکز کو نشانہ بنائے جانے کا الزام امریکا اور اسرائیل کے سر تھوپا ہے۔
دوسری جانب الحشد الشعبی کے سربراہ فالح الفیاض نے بعد ازاں ابو مہدی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے باور کرایا کہ یہ الحشد الشعبی کا سرکاری موقف نہیں ہے۔
الفیاض نے واضح کیا کہ ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ساز و سامان کے گوداموں میں دھماکے “بیرونی منصوبہ بندی کا عمل” تھا جب کہ ذمے دار فریق کے بارے میں جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
ادھر امریکی وزارت دفاع کے ترجمان شون رابرٹسن نے گفتگو میں کہا ہے کہ گوداموں میں حالیہ دھماکوں کا امریکا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ترجمان نے باور کرایا کہ عراق میں امریکی موجودگی کا مقصد داعش کے خلاف جنگ کی کوششوں کو سپورٹ کرنا ہے .. اس طرح کہ عراق کی خود مختاری کا احترام باقی رہے اور عراق کی فضائی حدود کے استعمال کے حوالے سے عراقی حکومت کی ہدایات کے دائرے سے تجاوز نہ کیا جائے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے شام میں سیکڑوں فضائی حملے کیے جن میں بعض میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کا مقصد تہران کو عراق میں اپنے عسکری وجود کو مضبوط بنانے اور خطے میں اس کے ایجنٹوں تک جدید اسلحہ پہنچنے سے روکنا ہے۔
اسرائیلی عہدیدار حالیہ عرصے میں اس جانب توجہ دلا چکے ہیں کہ عراق گذشتہ چند سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔ تاہم ان ذمے داران نے عراق میں الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر حالیہ دھماکوں کے حوالے سے براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا۔