اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت نے سیلابی موسم کے دوران پاکستان کے ساتھ آبی وسائل سے متعلق معلومات کے تبادلے کے سن 1989 میں طے پانے والے معاہدے کی تجدید سے انکار کر دیا ہے۔ نئی دہلی نے دریاؤں کا رخ موڑنے کے لیے اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق آبی ذخائر سے متعلق بھارتی وزیر گجنیدرا سنگھ شیکھاوت کا کہنا ہے کہ بھارت کے حصے کے پانی کو پاکستان جانے سے روکنے کے لیے دریاؤں کے اضافی پانی کا رخ موڑنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
شیکھاوت کا کہنا تھا، ”ایسے سارے پانی کو جو ہمارے حصے کا ہے اور برسات کے موسم سمیت دیگر موسموں کے دوران بہہ کر پاکستان کی طرف چلا جاتا ہے، اسے موڑنے کے لیے کام جاری ہے۔ ہم یہ اپنے کسانوں، تاجروں اور پینے کے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔‘‘
سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت چناب، جہلم اور دریائے سندھ کا پاکستان کی جانب بہاؤ نہیں روک سکتا جب کہ اسی معاہدے کے تحت دریائے ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہے۔ بھارتی وزیر کے مطابق وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے بلکہ اپنے حصے کا پانی پاکستان جانے سو روکیں گے۔
پاکستان میں فصلوں کے لیے درکار پانی کا اسی فیصد کا انحصار دونوں ممالک کے مابین عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے پر ہے۔ اس سے پہلے بھارت نے فروری میں بھی اضافی پانی پاکستان جانے سے روک دیا تھا۔
دوسری جانب مون سون کے موسم میں دریاؤں میں تغیانی آ جاتی ہے۔ سن 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت نئی دہلی حکام پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں میں بہت زیادہ مقدار میں پانی چھوڑنے سے قبل اسلام آباد کو اطلاع دینے کے پابند ہیں۔
تاہم سن 1989 میں دونوں ممالک کے مابین ایک دوسرا معاہدہ بھی طے پایا تھا جس کے تحت بھارت پاکستان کو اپنے آبی وسائل یا ‘ہائیڈرلوجیکل‘ معلومات فراہم کر رہا تھا۔ تب سے اس معاہدے کی سالانہ بنیادوں پر تجدید کی جا رہی تھی۔
بھارتی اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق دونوں ممالک کے مابین کشمیر کے معاملے پر جاری موجودہ کشیدگی کے تناظر میں بھارت نے رواں برس اس معاہدے کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے لیے بھارتی کمشنر پی کے سکسینا کے مطابق پاکستان کو بدھ کے روز اس معاہدے کی تجدید نہ کرنے کے بھارتی فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔