میرا سوال سنتے ہی صاحب اپنی کر سی سے یوں اچھلے جیسے کسی کیڑے نے ان کے جسم کے کسی نازک حصہ کو تاک کے نشانہ بنایا ہو۔ قدرے خفگی سے بو لے آپ ہیں کون ؟ میں تو آپ کو نہیں جا نتا ۔۔ میں نے عرض کی کہ معلومات دینے کے لئے کیا جاننا ضروری ہے ؟ ویسے صاحب جی اس سے پہلے بھی دوبا ر پہلے بھی آپ لیہ تعینات رہ چکے ہیں ہے، ویسے تو کئی بار ملاقاتیں ہو ئی ہوں گی لیکن خیر نہ بھی ملے ہوں تو میں بتا چکا ہوں کہ میرا تعلق میڈ یا سے ہے اور یہ میرا نام ہے ، اور سوال بھی کچھ ایسا مشکل نہیں کہ آپ جواب نہ دے سکیں ۔۔ کل آپ کی شجر کاری مہم شروع ہو رہی ہے ۔ سوال صرف یہ ہے کہ گذ شتہ دو سال کے دوران ہو نے والی شجر کاری مہم کے دوران جتنے پودے لگے تھے ان میں سے کتنے بچے ہیں اور کتنے اللہ کو پیارے ہو گئے ؟
یہ ذکر ہے ان دنوں کا جب محکمہ جنگلات سال میں دوبار شجر کاری مہم چلایا کر تا تھا اورآج کی طرح ہر ماہ اور ہر روز کلین اور گرین ریلیاں نہیں نکلا کرتی تھیں ، انعام الحق ڈی سی تھے اور ان کے مخالف بھی ما نتے ہیں کہ انعام الحق ایک دبنگ ڈپٹی کمشنر تھے ۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ شجر کاری مہم کا افتتاح حسب روائت ڈپٹی کمشنر نے ڈی سی کمپلیکس میں پودا لگا کے کرنا تھا اس تقریب میں مقامی میڈ یا کو بھی دعوت دی گئی تھی غالب بھی ان دنوں قدرے جوان تھا سو محکمہ جنگلات کی اس تقریب سعید میں ہماری حاضری بھی پکی تھی ہو نے والی شجر کاری مہم کی افتتاحی تقریب سے ایک دن پہلے ہم نے سو چا کہ کیوں اس بارے کچھ اضافی معلومات لے لی جا ئیں تاکہ صبح پا کستان کے قارئین کو شجر کاری مہم کی نیوز سٹوری میں کچھ سیر حاصل پڑھنے کو مل سکے اور معلومات و آ گہی کے لئے ہم ڈی ایف او جنگلات کے دفتر میں پہنچے تو پتہ چلا کہ کچھ ہفتوں قبل نئے صاحب تشریف لا ئے ہیں اور وہ دفتر میں مو جود ہیں ۔ ہم نے حسب ضابطہ چٹ چپڑاسی کے ہاتھ صاحب کے حضوربھیجی اور اذن بار یابی چا ہی ۔ یہاں میںبتاتا چلوں کہ میرے ہم عصر دوست دفاتر میں چٹ بازی کر نے کی عادت پر خاصے جز بز ہوا کرتے تھے لیکن میں آج بھی کو شش کر تا ہوں کہ نیم چٹ بھیج کر افسر مجاز سے ملاقات کی جا ئے اب پتہ نہیں یہ اچھی بات ہے کہ نہیں لیکن ایک واقعہ کے بعد یہ میری عادت بن چکی ہے وہ واقعہ کیا تھا اس کا ذکر پھر کبھی سہی ۔۔
چند ہی لمحوں کے بعد ہم صاحب کے سا منے بیٹھے اپنی حاضری کا مقصد بتا رہے تھے ، افسر صاحب کی سسرالی فیملی بڑی با اثر تھی ، انہوں نے بڑی خشمگیں نگا ہوں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگے میں تو تمہیں نہیں جا نتا میں تو ( لیہ کے چند سینئر صحافیوں کے نام لئے ) بس انہی کو جانتا ہوں ، آپ پھر کبھی آ جا ئیے گا ۔۔ اتنی دیر میں چپڑاسی چا ئے لے کر آ گیا کہنے لگے چا ئے پئیں ! میں نے کہا نو تھینکس اور ان کی آ فر قبول کئے بغیر با ہر نکل آ یا ۔۔
رات کو بخار ہو گیا سردی کے بخار نے ایک ہی رات میں چو لیں ڈھیلی کر دیں دن کے ساڑھے گیارہ بجے ہوں گے جب ملک مقبول کی ڈی سی آفس کے پی ٹی سی ایل نمبر سے کال آ ئی ۔ استاد جی آ نا نہیں ۔۔ ڈی سی آ فس ۔۔ شجر کاری کی افتتا حی تقریب میں ۔۔ میں نے آتا ہوں کہہ کر سردی سے بچا ئو کے لئے شال لپیٹی اور بیٹے سے کہا کہ مجھے ڈی سی آفس چھوڑ آ ئے ، خدا جھوٹ نہ بلوائے اس وقت بھی میرا بخار 102 تو ہو گا ۔ ایسی حالت میں گھر سے باہر جاتے دیکھ کر بیگم کا غصہ بجا تھا لیکن ہم نے جواب دینے اور جواب الجواب سننے کی بجائے راہ فرار کر نے میں ہی عافیت جانی ۔۔
ڈی سی آفس پہنچے ، میزبان تقریب جو کل ہمیں پہچان نہیں پا ئے تھے بڑی گرمجوشی اور خندہ پیشا نی سے ملے ، ہاتھ ملاتے ہی کہنے لگے انجم صاحب ، تمھیں تو شدید بخار ہے ۔میں نے کہا جی ۔۔ بس آپ کی محبت کھینچ لا ئی ہے ۔
تقریب کا آ غاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ، ڈی ایف او نے محکمہ جنگلات کے زیر اہتمام ہو نے والی شجر کاری مہم اور محکمہ جنگلات کی نر سیوں بارے بریفنگ تفصیلی بریفنگ دی ۔ سا معین نے تالیاں بجائیں اور ڈپٹی کمشنر سمیت سبھی معزز مہمانوں نے پودے لگا ئے ۔ ما حول ایسا تھا ہی نہیں کہ کو ئی سوال کیا جا سکتا ۔۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ شکر خورے کو شکر مل ہی جا تی ہے سو ہمیں بھی سوال کر نے کا موقع مل ہی گیا ہوا یوں کہ چا ئے پیتے ہو ئے جو نہی مجھے ڈپٹی کمشنر کے قریب ہو نے کا مو قع ملا میں نے کہا ۔۔ سر حکومت بر سوں سے سال میں دو بار شجر کاری مہم چلاتی ہے ہر ضلع میں پودوں سے لے کر پانی تک لا کھوں کے اخراجات ہو تے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ گذشتہ شجر کاری مہم کے دوران جتنے پو دے لگا ئے گئے تھے ان میں سے کتنے مر گئے اور کتنے بچے ہو ئے ہیں جو درخت بن سکیں گے ؟َ میرا سوال ابھی ادھورا ہی تھا کہ صاحب جلدی سے بو لے۔۔ سر یہ سارا ریکارڈ توہے نا میرے پاس ۔
ڈپٹی کمشنر نے صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ٹھیک ۔۔ دو پہر دو بجے آ جا ئیں آپ کے ریکارڈ کے مطا بق فیلڈ کا وزٹ کریں گے ۔۔ اور انفارمیشن آفیسر سے کہا کہ میڈیا کے دوستوں کو بھی دعوت دے دیں ۔۔
دو بجے ڈ پٹی کمشنر کی قیادت میں شروع ہو نے والا یہ تحقیقاتی سفر رات گئے ختم ہوا ۔کم از کم مجھے تو اس دن ضلع بھر کے جنگلات کو مکمل طور پر دیکھنے کا مو قع ملا ۔۔ رزلٹ تو وہی نکلنا تھا جو ہمارے ذہن میں تھا ، کا غذوں پر لکھے گئے اعدادو شمار اور زمینی حقائق میں بڑا فرق تھا ۔۔
سنا ہے کہ آج کے محکمہ جنگلات والوں کا دعوی ہے کہ ہم اب تک 8 ہزار سے زیادہ پو دے لگا چکے ہیں اورہمارے نو جوان صحافی مہر کامران تھند کہتے ہیں کہ وزٹ کرائو ۔۔ مجھے یہ واقعہ کل اس وقت یاد آیا جب میں نے شام کے وقت آفس سے آتے ہو ئے جزل بس سٹینڈ کی دو رویہ سڑک کے بیچ بنی چھو ٹی سی لائن نما دیوار پر پڑے خشک گملوں میں سو کھتے اور کملاتے ہو ئے ان پو دوں کو دیکھا جنہیں شا ید چند روز قبل گرین اینڈ کلین مہم کے دوران کو ئی رکھ گیا تھا ۔۔ اور مجھے وہ سارے بد نصیب پو دے ان فیس بکی دانشوروں پر نو حہ کناں سنائی دیئے جو دن رات درخت لگائو کا پرچار کر کے اپنی دیہاڑیاں کھری کر رہے ہیں۔