پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اختیارات سے تجاوز کرنا معمولی سی بات ہے کئی سالوں سے سینکڑوں لاپتہ شہری معمہ بنے ہوئے ہیں پاکستان کی عدالتیں انہیں پیش کرنے کی اب تلک دہائی دے رہی ہیں اور ان کے لواحقین آئے روز مظاہرے کرتے رہتے ہیں کچھ لاپتہ شہری تو حکومت کو بدنام کرنے کے لئے خود ”گمشدہ ” ہوگئے ہیں اور وہ دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہورہے ہیں پھرپولیس کے نجی عقوبت خانوںکی خبریں اکثر منظر ِ عام پر آتی رہتی ہیں ان حالات میں حقیقت کو تلاش کرنا پڑتاہے ہرحکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے ورنہ بااختیار و بااثر طبقات قدم قدم پر بنیادی حقوق صلب کرنے کے د ررپے ہیں یہ سب کچھ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کیا جارہاہے ہو سکتا ہے۔
حکومت یہ سب نیک نیتی سے کررہی ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو درپیش چینلجز میں انتہا پسندی اوردہشت گردی سب سے سرِفہرست ہیں اب تک دہشت گردی کے نتیجہ میں کم و بیش پچاس ہزار افراد شہید، لاکھ سے زیادہ معذورہو چکے ہیں کھربوں مالیت کی املاک تباہ اور قومی اداروںکوناقابل ِ تلافی نقصان پہنچ چکاہے۔ دہشت گردوںکی سر کوبی کیلئے پاک فوج نے ”اپریشن ردالفساد”شروع کررکھاہے جس کے بڑے مثبت نتائج شامنے آرہے ہیں جسے پوری قوم کی مکمل تائید حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے سیاستدانوں اوربیشتر عوامی حلقوں کو پولیس سمیت سکیورٹی فورسز میں چھپے ان اتھرے افسروں اور اہلکاروں پر بڑے تحفظات ہیں رائو انوار کی مثال سب کے سامنے ہے۔سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ ساہیوال میں تو ذمہ داروںکی فوٹیج بھی موجودہیں پھر بھی ان کو قرار واقعی سزا نہیں دی جا سکی اور معاملہ لٹک کررہ گیاہے اس کے علاوہ تھانوںمیں پولیس تشدد سے ہلاکتوں کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں پولیس مقابلوںمیں بے گناہوںکو ڈاکو پوز کرکے ہلاک کرنے کی کئی کہی ان کہی کہانیاں گردش کرتی ہیں پاکستان میں تین درجن سے زائد مختلف ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، رینجر، پولیس، محافظ ،ایلیٹ فورس،ڈولفن اور کئی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں پھر سکیورٹی اداروںکو شتربے مہار اجازت دینا یا ان کااختیارات سے تجاوز کرناکچھ نرالی منطق نہیں۔
اگر قانونی طور اور آئینی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سب کچھ پاکستان کے آئین کی روح کے منافی ہے1977ء کے آئین میں شہریوںکے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ کسی پاکستانی کو بھی دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت قانون سازی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن مظلوم لوگوں کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے ۔ اس میں کوئی شک اوردوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کے دشمنوں،انسانیت کے قاتلوں اور امن کی کوششوںکو سبوتاژ کرنے والوںسے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن حکمرانوںکو کسی شہری کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرنے کا کوئی حق ہے نہ جواز۔ ہرپارٹی جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہے تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے بلندو بانگ دعوے کرتی ہے پھر اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے ۔ضروری ہے کہ مسلح مذہبی اور سیاسی گروہوں اور جرائم پیشہ افرادکے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
جبکہ جوہری تنصیبات، ہوائی اڈوں،پارلیمنٹ، عدلیہ ،انتظامیہ، میڈیا ارکان کا اغواء ،قتل یا حملوں ۔عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے والوں سخت ترین سزائیں دینی چاہیے ،سائبر جرائم بھی اسی زمرے میں آئیں گے لیکن حکومت کو نیب یا کسی اور دارے کو سیاسی مخالفین کی زبان بند کرنے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے ورنہ جمہوری حکمران ڈکٹیٹر بن جائیں گے آج موجودہ حکومت کے مخالفین شورمچارہے ہیں کہ ان سے احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لیا جارہاہے حکومت کو اپنے طرزِ عمل سے اس تاثرکوزائل کرناہوگا ۔۔ یقیناسیاسی حلقوںکی اس بات میں وزن ہے اس لئے موجودہ حکمرانوںکیلئے اعتدال کا راستہ اختیارکرنادانشمندی ہے۔کہا جاتاہے پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے بہتر ہے حکومت تمام سرکاری اداروں اور محکموں میں اصلاحات کرے۔
اگر ملکی حالات دیکھیں تو ہر پاکستانی کی خواہش کہ دہشت گردوںکو سخت ترین سزائیں دے کر انہیں عبرت کا نشان بنادیا جائے لیکن جناب اختیارات سے تجاوز کرنا بھی سماجی دہشت گردی ہے اس سے نہ صرف عوام کے بنیادی حقوق متاثرہوتے ہیں بلکہ مسائل بھی پیداہورہے ہیں اس لئے خاص طورپرقانون نافذ کرنے والے اداروںاور محکموںمیں ترجیحی بنیادوںپر اصلاحات کرکے تنظیم ِنوکی جائے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور عمران خان کا عوام سے وعدہ بھی کہ ہم تھانہ کلچر تبدیل کردیں گے جنابِ وزیر ِ اعظم اپنا وعدہ پورا کریں۔