اقبال، علامہ اسد، موددی، قائد اعظم اور چوہدری نیاز علی

Allama Iqbal

Allama Iqbal

تحریر : میر افسر امان

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اسلام آباد اور انسٹیٹویٹ آف پالیسیز اسٹڈیز اسلام آباد کے اشتراق سے ٢٣ مارچ اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد کے حال میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ نومسلم علامہ محمد اسد صاحب کے اعزاز میں یہ پروگرام بعنوان ” پاکستان کی تعمیرو تشکیل اور علامہ محمد اسد١٩٠٠۔١٩٩٢” رکھا گیا تھا۔ان پروگرام میں حضرات نے اپنی تقریرویں میں علامہ محمد اسد کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال، موددی اور قائد اعظم ، دارلسلام جمال پور پٹھان کوٹ اور چوہدری نیاز علیکا نام نامی بھی استعمال کیا۔اس لیے راقم نے اس پروگرام کی رپورٹینگ کرتے ہوئے ،اپنے کالم کا نام”اقبال ،علامہ اسد،موددی ، قائد اعظم ” چوہدری نیاز علی رکھا۔ اس پروگرام کے مہمان خصوصی مسلم لیگ نون کے رہنما ،سینیٹر جناب راجہ ظفر الحق صاحب تھے۔

صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے کی۔اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اور انسٹیٹیوٹ آف پالیسیز اسٹڈیز کے اشتراق سے اس قسم کا یہ دوسرا پروگرام ہے۔ حال کے باہر لان میں سبزہ زار پر اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، انسٹیٹیوٹ آف پالیسیز اسٹڈیز اسلام آباد اور دیگر پبلیشرزنے اپنی اپنی کتابوں کے اسٹال بھی لگائے ،جن سے لوگوں نے اپنی اپنی پسند کی کتابیں خریدیں۔راقم کو اس بات پر خوشی ہوئی کہ مقریرین نے اس میں پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعرِ اسلام ،علامہ شیخ محمد اقبال، پاکستان کی تعمیر اور تشکیل میں حصہ لینے والے نو مسلم علامہ محمد اسد، پاکستان کے دوقومی نظریہ کو تحریک پاکستان کے دوران اپنے مضامین کے ذریعے آل انڈیا مسلم لیگ کو تقویت پہنچانے والے سید ابو اعلیٰ موددی اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا اکٹھا نام اور پاکستان کی تشکیل میں کنٹریبیوشن پر مقریرین نے جاندار تذکرہ کیا۔

اس پروگرام میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین جناب قبلہ ایاز صاحب ، ایگز یکیٹیو پریزیڈنٹ، انسٹیٹیویٹ آف پالیسیز اسٹڈیز اسلام آباد کے خالد رحمان صاحب، نون لیگ کے رہنما اور سینیٹر جناب،راجہ ظفرلحق صاحب ،پروفیسر ڈاکٹر ایس این زمان صاحب، سابق چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد،، ڈاکٹر پروفیسر محمد خالد مسعود صاحب، سابق چیئرمین، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اسلام آباد، ڈاکٹر اکرام الحق صاحب سیکرٹیری اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد، پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد صاحب چیئرمین شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور شریک ہوئے۔

کیونکہ مفکر پاکستان علامہ اقبال کو اس بات کا یقین حاصل ہو گیا تھا کہ ان شاء اللہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیزاور کرشماتی لیڈر شپ میں پاکستان بن جائے گا۔ لہٰذا علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ کوئی ئی ایسا فرد مہیا ہو جائے جو اسلام کے فقہ کے خزانے کی تدوینِ جدید کرے۔ان ہی دنوں میں حیدر آباد دکن سے سید موددی نے ایک رسالہ ترجمان القرآن جاری کیا ہوا تھا۔ اس رسالے میں١٩٣٢ء سے سید موددی برصغیر کے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو ایک ایسی حکومت الہیٰہ کی طرف بلا رہے تھے۔ جس میں انسان ہونے کے ناطے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے حقوق برابر تھے۔وہ حکومت مدینہ کی اسلامی ریاست تھی۔ جسے اللہ کے رسولۖ نے خود اللہ کے احکامات کے تحت مدینہ میںقائم کیا تھا۔ اس حکومت کوخلفاء راشدین نے اس دنیا میں کامیابی سے چلایا تھا۔ جس کا نمونہ اب بھی اسلامی تاریخ میں موجود ہے۔علامہ ا قبال، سید موددی کے ترجمان قرآن ر سالے کے مستقل قاری تھے۔

علامہ اقبال کی نظر سید موددی پر پڑی کہ یہ شخص فقہ کی تدوین جدید کر سکتا ہے۔ حس اتفاق کہ ا سلام سے محبت کرنے والی پنجاب جمال پورپٹھان کوٹ کے زمیندار جناب چوہدری نیاز علی صاحب نے علامہ اقبال کو اپنا خطہ زمین اس کام کے کرنے کے لیے پیش کیا۔علامہ اقبالنے سیدموددی کو حیدر آباد دکن سے لاہور بلاکر اس کام پر لگایا۔ یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ سال کے چھ ماہ جمال پورپٹھان کوٹ میں گزارہ کریں گے۔چوہدری نیاز علی کوانتظام کے لئے سید موددی سے رابطہ کرنے کا کہا۔ چوہدری نیاز علی اور سید موددی نے خط وکتاب کی ۔ بلا آخر سید موددی نے حیدر آباد دکن سے پنجاب کے علاقہ جمال پور پٹھان کوٹ جس کا نیا نام دارلسلام تجویز کیا گیا تھا اللہ کے لیے ہجرت کی ۔

علامہ محمد اسد تو پہلے سے ہی علامہ اقبال کی خواہش سے واقف تھے۔ لہٰذا علامہ محمد اسد اس کام کو کرنے کے لیے چوہدری نیاز علی کے گھر ہی میں مقیم ہو گئے۔ علامہ محمد اسد اور سید موددی نے علامہ اقبال کی خواہش کے مطابق جمال پور پٹھان کوٹ چوہدری نیاز علی کے کمپلکس میں کام شروع کر دیا۔اس کے بعد فوراً بعد ہندوستان کی تقسیم ہو گئی۔دارلسلام میں جمع سارے لوگوں کو لاہور پاکستان منتقل ہونا پڑا۔ علامہ محمد اسد نے پنجاب حکومت سے کہہ کر بسوں کا انتظام کیا اور دارلسلام کے اسٹاف کو پاکستان لاہور منتقل کیا۔بلوائیوں نے علامہ محمد اسد کی لائیبریری کے ایک حصہ کو بھی تلف کر دیاجس پر انہیں بہت افسوس ہوا تھا۔اس کے پاکستان میں دارلسلام کے نام سے پنجاب کے علاقہ خوشاب جوہر آباد میںیہ ادارہ

٢
قائم ہوا جو اب بھی کام کر رہا ہے۔ اس پروگرام میں دارلسلام جوہر آباد خوشاب کے ڈاریکٹر جناب چوہدری عطا اللہ صاحب بھی شریک تھے۔ انہوں نے چوہدری نیاز علی علامہ محمد اسد کے حوالے سے اس ادارے کی تعلیمی سرگرمیوں کی موجودہ پوزیشن کو حاضرین کے سامنے بیان کیا۔

جب پاکستان بنا تو اسی تسلسل میں حضرت قائد اعظم نے ایک ادارہ، ” ڈیپا ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن” قائم کیا۔ اس کے سربراہ علامہ محمد اسد کو بنایا۔ علامہ محمد اسد نے اس ادارے کے تحت بنیادی طور پر کافی کام کیا۔ حکومت میں موجود قادیانی بیروکریٹ نے علامہ محمد اسد کے ادارے ” ڈیپا ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن کے سارے کام کی فائلوں کو آگ لگا کر جلا دیا۔ صرف ایک خط جو قائد اعظم نے پاکستان کی منسٹری آف فائنس کو اپنے ہاتھ سے لکھا تھا وہ بچ گیا۔یہ خط قائد اعظم نے خود منسٹری آف فائنس پاکستان کو لکھا تھاکہ ” ڈیپا ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن” ادارے کے لیے ضروری فنڈ کا انتظام کیا جائے۔ یہ خط پرانے ریکارڈ میں سے اوریا مقبول جان صاحب مشہور دانشورکو مل گیا۔ جسے اب بھی ان کے پاس دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلام دشمن بیروکریٹس نے علامہ محمد اسد کو بعد میں بیرون ملک سفیر بنا کر بھیج دیا۔ اس حالات کی وجہ سے علامہ محمد اسد پاکستان دشمنوں سے بیزار ہو گئے تھے۔

جرمنی کے شہر برلن میں ان کی قبر موجود ہے۔ جس کے کتبہ پر لکھا ہے اے نفس مطمئہ ۔۔۔ اس کتبہ کو سلائیڈ کی شکل میں حاضرین کو دیکھایا گیا ۔ اس کے علاوہ علامہ محمد اسد کی کتابوں کے ٹائیٹل کی سلائیڈ بھی حاضرین کو دکھائی گئی ۔ اس میں قرآن شریف کا ترجمہ the quranاور this law of ours. شامل ہے۔ اس میں شروع کے مسلمانوں کے حالات لکھے۔علامہ محمد اسد نے یہ بھی لکھا کہ پہلے مقامی قوموں کو ترقی دینا ہے۔ اس کے بعد ان ترقی یافتہ قوموں سے اسلامی ملت بننی ہے۔لکھا کہ دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے سے ساری کی ساری قومیںبمشول مسلمان پریشان ہیں۔لیکن مسلمان اپنے شاندار ماضی کو یاد اور سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ شہریت اللہ کی طرف سے ہے اور فقہ اس کی تشریع ہے۔ہم نے اسلام سے ہدایات لے کر اپنے معاشرے کو مضبوط کرنا ہے ۔ سارے قوانین اسلامی دانشوروں نے بنانے ہیں۔آخر میں سارے اسلامی قوانین کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے قانون کی شکل دینا ضروری ہے۔قرآن اور حدیث سے ہدایت لینی ہے ہمیں لیفٹ یا رائٹ کی ضرورت نہیں۔علامہ محمداسد کے بیٹے طلال اسد صاحب سے علامہ محمد اسد کے متعلق مذید معلومات لی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی کہاگیا کہ اقبال اسد اور موددی کی وجہ سے دارلسلام قائم ہوا تھا۔ ”لاء آف اورز” کتاب کے مضمون ان کے رسالہ عرفات سے لیے گئے ہیں۔

اس پروگرام میں پروفیسر ڈاکٹر انیس صاحب ، وائس چا نسلر، رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کا علامہ محمد اسد پر لکھا ہوا مقالہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسیز اسٹڈیز کے جنا ب شیراز اقبال شام صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ اس میںڈاکٹر انیس صاحب علامہ محمد اسد کے ساتھ پاکستان کی تشکیل میںنے سیدموددی کا بھی ذکر کیا۔ سید موددی نے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم کے دو قومی نظریہ پر زور دار مضمون لکھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ان مضامین کو پورے برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان میں پھیلا کر دو قومی نظریہ کو مضبوط کیا۔ یہ مضامین اب بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد سید موددی کو ریڈیو پاکستان پر اسلام کا نفاذ کیسے ممکن ہے پر تقریرں کرنے کا کہا۔ یہ تقاریر بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہیں۔ کہیں پاکستان دشمن ان کو بھی ضائع نہ کردیں۔ مقریرین کے مطابق علامہ محمد اسد نے بھی اسلام کے عملی نفاذ کے لیے ریڈیو پاکستان سے تقاریر کی تھیں۔ اسلام سے محبت کرنے والوں کو ان دونوں صاحبان کی تقریر کی نقل کروا کر عوام میں پھیلانا اور محفوظ کرنا ضروری ہے۔مقریرین نے علامہ محمد اسد کی تقریروں کے حوالے دے کر ثابت کیا کہ پاکستان میں اسلام کی عملی نفاذ کے لیے بے چین رہتے تھے۔مگر اسلام دشمن بیروکریٹ نے انہیں مایوس کیا جس سے وہ دل برداشتہ ہوئے۔

پروفیسرڈاکٹر محمدخالد مسعود سابق چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان اسلام آباد صاحب نے کہا کہ علامہ محمد اسد کو پاکستان کے لوگ بھول گئے ہیں ۔ ان کی پاکستان کے لیے خدمات کویاد رکھنا ضروری ہے۔ان کی انگریزی کی کتاب سے اسلام کی خدمت میں ایک مثال کا اردو ترجمہ کی سلائیڈ پر دیکھایا۔ جس میں انہوں نے کہ بازار میں پرانے آف ڈیٹڈ کپڑے پڑے ہوئے ہیں اور لوگ یہ دیکھتے ہوئے بھی اس زمانے میں یہ کپڑے کام نہیں آسکتے، مگر دھڑا دھڑا پرانے کپڑے خرید رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ علامہ محمد اسد پرجناب اکرام الحق صاحب کی لکھی ہوئی کتاب میں سے مفید معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔

مہمان خصوصی راجہ ظفر الحق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ سیکولر حضرات ہمیشہ قائد اعظم پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ پاکستان معاشی ترقی کے لیے بنا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں مصر میں پاکستان کا سفیر تھا تو مصر کے لوگوں ،جن میں مشہور اخبار کے ا یڈیٹر بھی شامل ہیں ان کے ذہن بھی ایسے ہی خیالات تھے۔ میں نے ان کو ایک کتاب سے پڑھ کر سنایا کہ بھائی پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الاللہ” کے نام سے بنا ہے ۔اس میں معاشی ترقی کہاں سے آ گئی۔ انہوں نے کہا کہ پھریہ کتاب میں نے ان کو تحفے کے طور پر پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ میں ١٩٥٨ء لاء کالج کا طالب علم تھا ۔اس وقت میری علامہ محمد اسد سے ملاقات ہوئی تھی۔میں نے دیکھا کہ علامہ محمد اسد اور فلطین کے مفتی اعظم حیسنیپر اس وقت کسی کو اعتراض نہیں تھا۔راجہ ظرالحق نے کہا کہ لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ ہمیں امریکا یاروس کی طرف دیکھنے سے بہترہے کہ ہم اپنے پیغمبرۖ کی تعلیمات طرف دیکھیں۔ راجہ صاحب

٣
نے کہا کہ تیسری دنیا پر قبضہ کے لیے استعمار نے پہلی دوسری جنگ کی تھی۔ ہمارے ملک میں سودی بنکاری چل رہی ہے جبکہ دنیا میں٨٠ غیر سودی نظام پر کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اب دینا کا رجوع اسلام کی طرف ہو رہا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے اختتامی تقریر میں شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا، ان شاء اللہ آئندہ میں بھی انسٹیٹویٹ آف پالیسیزاسٹڈی اسلام آباد کے اشتراق سے ہم پاکستان کے اسلامی تشخص اور تحریک پاکستان میں مد دکرنے والے معروف لوگوں کے متعلق پروگرام کرتے رہیں گے۔ دوسری باتوں کے علاوہ انہوں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ کتنا اچھاکہ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں علامہ محمد اسد کے نام کی چیئر رکھی جائے۔ بہر حال میں اپنے طور پر اسلام نظریاتی کونسل کی لائیبریری کو علامہ محمد اسد کے نام کرنے کااعلان کرتاہوں۔لائیبریری کی علامہ محمد اسد کے نام سے وابستگی اور شناخت کے لیے ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ اس اعلان کو حاضرین نے بہت پسند کیا اور تالیں بجا کر اس کی بھر پور تائید کی۔ آج کا پروگرام اختتام کو پہنچا ۔ آخر میںمہمانوں کے لیے ایک پر تکلف ریفریش منٹ کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان