ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں صحافیوں کی متعدد تنظیموں نے میڈیا کے حقوق کی نگہبانی کے لیے قائم پریس کونسل آف انڈیا کی حکومت کے آگے مبینہ ’گھٹنے ٹیکنے‘ کی مذمت کرتے ہوئے اس رویے کو صحافت کی آزادی کے لیے تشویش ناک قرار دیا ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے مودی حکومت کے اعلان کے بعد گزشتہ پانچ اگست سے وہاں میڈیا پر عائد پابندی کے خلاف ایک اخبار نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے حکومت کو پریس کی آزادی بحال کرنے کی درخواست دی ہے۔ سری نگر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکیٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی عرضی میں کہا ہے کہ پریس پر عائد پابندی پوری طرح غیر جمہوری اور غیر آئینی ہیں۔ یہ بھارتی آئین کی طرف سے دی گئی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ وادی میں موبائل، انٹرنیٹ اور لینڈ سروسز بند ہیں، جس کی وجہ سے صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر پا رہے ہیں، وہ اپنا اخبار شائع نہیں کر پا رہے اور کشمیر کے عوام تک خبریں اور ا طلاعات نہیں پہنچ پا رہیں۔ لہذا سپریم کورٹ حکومت کو تمام مواصلاتی پابندیاں ختم کرنے اور پریس کی آزادی بحال کرنے کا حکم دے۔
گو کہ اس درخواست پر سپریم کورٹ میں کل یعنی 27 اگست کو سماعت ہو گی لیکن اس سے پہلے ہی پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کے چیئرمین سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس چندر مولی کمار پرساد نے اس معاملے میں خود کو فریق بنانے کے لیے عدالت عظمیٰ میں ایک عرضی دائر کر کے انورادھا بھسین کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ جسٹس پرساد نے کشمیر میں پریس کی آزادی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو درست قرار دیا اور کہا ”کشمیر میں قومی مفاد کے مدنظر مواصلاتی خدمات پر پابندی عائد کرنا ضروری تھا۔‘‘
پریس کونسل آف انڈیا ایک قانونی، نیم آئینی اور خود مختار ادارہ ہے۔ اس کا قیام 1966ء میں بھارت میں میڈیا اور صحافیوں کے مفادات اور آزادی کے تحفظ کے لیے عمل میں آیا تھا۔ اس کے 28 اراکین میں سے 20 کا میڈیا سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔
پی سی آئی کے چیئرمین جسٹس پرساد کے اس اقدام کی بھارت میں صحافیوں کی متعدد ملک گیر تنظیموں نے سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان میں نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دہلی یونین آف جرنلسٹس، پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا اور انڈین وومنز پریس کور وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا حکومت کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہے، جب کہ اس کے قیام کا مقصد پریس اور صحافیوں کو حکومت کی جانب سے بے جا مداخلت سے تحفظ فراہم کرنا اور پریس اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
ان تنظیموں نے پی سی آئی پر حکومت کی حمایت کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ اتنے اہم معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے جسٹس پرساد نے پی سی آئی کے کسی رکن سے صلاح و مشورہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ دوسری طرف جسٹس پرساد کی دلیل ہے کہ اگر معاملہ فوری توجہ کا متقاضی ہو تو اس کے لئے کونسل کی میٹنگ طلب کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ چیئرمین کا اختیار ہے کہ وہ کب میٹنگ طلب کرے۔
متعدد قومی اخبارات نے بھی پی سی آئی اور بالخصوص جسٹس پرساد کے فیصلے کے خلاف اداریے اور خصوصی مضامین شائع کئے ہیں۔’دی ہندو‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے، ”پی سی آئی کو حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ اس کا اقدام پریس کی آزادی کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے۔”
اس پورے معاملے پر سینئر بھارتی صحافی اور ”کشمیر: وراثت اور سیاست” کے مصنف ارملیش نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا، جسے پریس اور اظہا رائے کی آزادی کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا تھا، اس نے کشمیر میں پریس کی آزادی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو نہ صرف پوری طرح جائز ٹھہرایا ہے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ سپریم کورٹ میں فریق بھی بن گئی۔”
ارملیش کا مزید کہنا تھا،”میں نے 1975ء میں اندرا گاندھی کی حکومت کے دوران ایمرجنسی کا دور بھی دیکھا ہے اور اس کا شکار بھی ہوا تھا۔ اس لئے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح کے حالات آج ہیں ایسے حالات ایمرجنسی میں بھی نہیں تھے۔ ایمرجنسی میں چند ادیبوں، صحافیوں اور پریس کے مالکان کی گرفتاریاں ہوئی تھیں کیوں کہ انہوں نے سینسرشپ کی مخالفت کی تھی۔ لیکن آج کی طرح خود کو مکمل حکومت کے حوالے کرنے کا معاملہ نہیں تھا۔ آج میڈیا اور بعض ادارے جس طرح حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں، یہ ایک نیا رجحان ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے۔”
ارملیش کا کہنا تھا، ”آج ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے گویا حکومت سے عدم اتفاق رکھنے والا ہر شخص ملک دشمن یا دہشت گردی کا حامی ہے۔ ایسے دور میں بلا شبہ جمہوریت غیر معمولی خطرے سے دو چار ہے۔ یہ معاملہ صرف کشمیر تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھارت کی جمہوریت کے زندہ رہنے کا سوال ہے۔”