دنیا کے سارے ادیان کو ان کے پیروں کاروں نے اپنی اپنی انسانی خواہشات کے مطابق رد و بدل کر کے الہی احکامات سے تقریباً خالی کر دیا ہے۔ صرف اسلام ہی امن و سلامتی والا دین اپنی کمل حالت میںاب بھی موجود ہے۔ اسلام سے ہٹ کرے دوسرے ادیان کے اندر اگر کچھ امن و سلامتی کی باتیں پائی بھی جاتیں ہیں تو وہ بھی اسلام کی ہی مرہون منت ہیں۔دنیا کے دو پرانی مذاہب یہودیت اور عیسائیت کی بات کی جائے تو ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء بنی اسرائیل پر امن و سلامتی کے بارے میں جو احکامات نازل کیے تھے ۔ ان مذاہب کے لوگوں نے رد وبدل کر کے اپنے حکمرانوں یا مذہبی پیشوائوں کے حق میں تبدیل کر دیے ہیں۔یہی حال دوسرے مذاہب کا بھی ہے،جن میںبدھ مت اورہندوازم شامل ہے۔ان میں بھی امن و سلامتی کو انسانی خواہشات نے گڈ مڈ کر دیا گیا۔اسلام دشمنی میں ایک عرصہ سے اور خصوصی طور پر نائین الیون کے بعد تو مسلمانوں کو دہشت گرد، بنیاد پرست وحشی اور نہ جانے کتنے اور الزامات کا سامنا کر پڑھ رہا ہے۔پاکستان کاازلی دشمن بھارت تو اس ناجائز مہم میں سب سے آگے آگے ہے۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عروج کے دور میں نناویں سالوں کے اندر اندر اس وقت کی معلوم دنیا کے غالب حصہ پر مسلمانوں نے اسلام کی جھنڈے گھاڑ دیے تھے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس وقت مسلمانوں عروج پر تھے اور ان کے تلواریں دشمنوں کو کاٹ رہیں تھیں تو دشمنوں نے اُس وقت مسلمانوں کو وحشی، بنیاد، پرست اور دہشت گرد نہیں کہا تھا۔ کیونکہ اسلام اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا تھا۔ جب مسلمانوں کی تلواریںان کے اپنے کرتوتوں سے زنگ آلود ہو گئیں اور یہود ونصارا پھر ان پر غالب آ گئے تو اور انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کیے۔ اپنی دہشت گردی ، وحشی پن اور خونخواری کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکارنے لگے کہ اسلام تو تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ہندو قوم کے صائب الرائے گاندھی جیسے شخص نے بھی کہا تھا کہ ”اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے” نہیں ہر گز نہیں! اسلام انصاف اورجہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر پھیلا ہے۔ اب بھی اسی فلسفہ پر عمل کر نشاة ثانیہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
اسلام نہ پہلے بنیاد پرست اور وحشی تھا اورنہ اب ہے۔ہاں مسلمان جب جہاد فی سبیل اللہ کے فلسفہ سے نابلد ہو گئے اور جہاد کے نام پر کچھ لوگ غلطیاںکرنے لگے تو دشمنوں کے اس بیانیہ کو تقویت ملی۔ اگر کچھ مسلمان علماء نے اس سفید جھوٹ کا جواب دیا بھی تو وہ دشمنوں سے مغلوب یا متاثر ہو کر دیا۔ مسلمان ایک زندہ جاوید مذہب کے پیروکار ہیں ۔اللہ نے خود اپنے کلام قرآن شریف کی حفاظت کا ذمہ لیا ہواہے۔ توکیوں نہ مسلمان معذرتانہ رویہ کے بر خلاف ڈنکے کی چوٹ پرانبیاء کی سنت پر چلتے ہوئے قرآن ،حدیث کے مطابق اسلام کو ایک پر امن اور سلامتی والے دین کے طور پر انسانیت کے سامنے پیش کریں۔الحمد اللہ مجددِ وقت سید ابو اعلیٰ موددی صاحب نے یہ کام کیااور دین کے دشمنوں کے سامنے الااعلان قرآن حدیث میں بیان کیے گئے احکامات کے مطابق بیان کیااور دین کے دشمنوں کو مدلل جواب دیا۔اللہ تعالیٰ کے احکامات ایسی چیزہیں کہ انہیں اسی طرح بیان کر دینا چاہیے کہ جیسا اللہ نے چاہا ۔ اگر کو ئی مانتا ہے تو نہ مانے مگر یہ احکامات انسانیت کے فاہدے کے لیے ہیںاور روز روزشن کی طرح عیاں ہیںاوربلا آ خر کٹر سے کٹرانسان بھی ان کوماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اسلام نے انسانی جان اور اس کا خون محترم قرار دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھرچار آدمی کیسے مل کر رہ سکتے ہیں۔اگر کوئی انسان اپنی ذاتی عداو ت کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے تویہ بدترین قساوت اور انتہائی سنگدلی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایاکہ” بغیر حق کے اگر کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو گویا اس نے ساری انسانیت کا قاتل ہے۔اگر کسی نے کسی انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی”(مائدہ۔٣٢) ایک دوسری جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ”وہ اُس جان کو جیسے اللہ نے محترم قرار دیا بغیر حق کے ہلاک نہیں کرتے”(الفرقان۔٦٨)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ”کسی ایسی جان کوجسے اللہ نے محترم قراردیا ہے ہلاک نہ کرو،سوائے اس صورت کہ ایسا کرنا حق کا تقاضا ہو”(الانعام۔١٥١)محسن انسانیت حضرات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔ انس بن مالک روایت کرتے ہیں۔فرمایا رسولۖاللہ نے کہ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا،قتل نفس اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا۔حضرت ابن عمر سے رویات کہ حضورۖ نے فرمایا ۔مومن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتا ہے جب تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔
یہ اُس وقت کی باتیں ہیں جب عرب میں انسانی جان کی قیمت کچھ نہیں تھی۔ اُس وقت کے تہذیب و شائستگی اور علم حکمت کے مر کز سلطنتِ روم کی بات کریں ،تو روم کے کلوسیم(colosseum) کے افسانے اب تک تاریخ کے صفحات میںموجود ہیںجن میں ہزار ہا انسان شمشیر زنی(istory) کے کمالات اور رومی امراء کے شوقِ تماشہ کی
٢ نذرہو گئے۔یورپ اور ایشیا کے اکثر ممالک میں مہمانوں کی تفریح کے لیے یا دوستوں کی تواضع کے لیے غلاموں کو درندوں سے پھڑوا دینایا جانوروں کی طرح ذبح کر دینا کوئی معیوب کام نہیں تھا۔قیدیوں اور غلاموں کو مختلف طریقوں عذاب دے دے کر مار ڈالنا اس عہد کا عام دستور تھا۔جاہل و خوخوار امراء سے گزر کر یونان ا و روما کے بڑے بڑے حکماء و فلاسفہ تک کے اجتہادات میں انسانی جانوں کے بے قصور ہلاک کرنے کی بہت سی وحشیانہ صورتیں جائز تھیں۔ ارستو اور افلاتون جیسے اساتذہ اخلاق ماں کو اختیار دینے میں کوئی خرابی نہ پاتے تھے کہ وہ جسم کے ایک حصہ کو الگ کر دے۔چناچہ یونان ا وروما میں اسقاط حمل کوئی ناجائز فعل نہ تھا۔جیسے موجودہ دور میں یہ کام مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا میںزور شور سے جاری ہے۔ حکماء رواقین(stoics) کے نزدیک انسان کو خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی بُرا کام نہیں تھا۔بلکہ لوگ جلسے کر کے اُن میں خود کشیاںکیاکرتے تھے۔
حد ہے کہ افلاطون جیسا حکیم اسے معصیت نہیں سمجھتا تھا۔کچھ عرصہ پہلے اخبارات میں خبر لگی تھی کہ یورپ کے کسی ملک میں کئی ہزار لوگوں نے زہر پی کر اجتمائی خود کشی کی تھی۔شوہرکو اپنی بیوی کو قتل کرنا ایسا تھا کہ اپنے پالتور جانورذبح کر دے۔قانونِ یونان میں اس کی کوئی سزا نہیں تھی۔جِیو رکھشا کا گہوارا ہندوستان اس سب سے بڑھا ہوا تھا۔جہاں مرد کی لاش پر زندہ عورت کو جلا دیناایک جائز فعل تھااور مذہباً اس کی تاکید تھی۔ شودر کی جان کوئی قیمت نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے کے وہ غریب برہما کے پائوں سے پیدا ہوا ہے۔اس کا خون برہمن کے لیے حلال ہے۔وید کی آواز سن لینا شودر کے لیے اتنا بڑا گناہ تھاکہ اس کے کان میں پگلا ہوا سیسا ڈال کر اسے مار ڈالنانہ صرف جائز بلکہ ضروری تھا”جل پروا” کی رسم عام تھی۔جس کے مطابق ماں باپ اپنے پہلے بچہ کو دریائے گنگا کی نذر کر دیتے تھے۔ اس قسادت کو اپنے لیے موجب سعادت سمجھتے تھے۔(حوالہ کتاب سید موددی الجہاد فی الاسلام)
صاحبو! ایسے تاریک دور میں امن و سلامتی والے اسلام نے آواز بلند کی کہ”انسانی جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے۔اسے قتل نہ کرو مگراس وقت کی جب حق اس کے قتل کرنے کا مطالبہ کرے ۔اس آواز میںایک قوت تھی ہندوئوں کے”اہنساپر مودھرا” کی آواز کی طرح عقل اور فطرت کی مطابقت سے محروم نہ تھی۔ اس لیے قرآن کی آوازکے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچی۔اس نے انسان کو اپنی جان کی صحیح قیمت سے آگاہ کیا۔انصاف پسند عالم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ دنیا کے اخلاقی قوانین میں،انسانی جان کی حرمت قائم کرنے کا فخر جتنا اسلام کی اس آواز کو حاصل ہے اتنا” پہاڑی کے وعظ” یا’ اہنساپرمودھرا” کی آوازکو حاصل نہیںہوا۔کیوں کہ اسلام دین ِفطرت اورامن و سلامتی والا دین ہے۔ جاری ہے)