کراچی کو کچرے سے پاک کیا جائے

Karachi Garbage

Karachi Garbage

تحریر : امتیاز علی شاکر

دو سال قبل ایک شخص روزانہ گلی کا کچرا اٹھا کر لے جانے لگا، ہم نے سمجھا شائدیہ سرکاری ملازم ہے جس کی صفائی کے حوالے سے یہ ذمہ داری لگی ہے کہ وہ روزانہ کچرا اُٹھایا کرے، ہمارا اندازہ اُس وقت غلط ثابت ہو گیا جب مہینہ پورے ہونے پر اس نے سوروپے فی گھرماہانہ مزدوری طلب کی،جس ذمہ داری اورفرض شناسی کے ساتھ اُس نے کچرااُٹھایا اُس حساب سے سو روپے مزدوری انتہائی کم معلوم ہوتی ہے جو سب نے فوراًاداکردی ،پہلے چھ ماہ تک وہ مزدورہاتھ سے چلنے والی ریڑی پرکچرااُٹھاتارہا پھراُس نے گدھاگاڑی خریدلی اورایک سال بعداس نے موٹرسائیکل رکشہ خریدلیاجس پروہ اب بھی روزانہ کچراُٹھاتاہے ،حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ دوسالوں کے دوران ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باوجودآج تک مزدوری بڑھانے کامطالبہ نہیں کیا،نہ کبھی چھٹی کرتاہے نہ کبھی اسے فون کرکے کہناپڑاہے کہ آج کچراکیوں نہیں اُٹھایاوہ ہرروزاپنا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے۔

دو سال گزر گئے ہماری گلی میں کبھی کچرے کے باعث کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا،کراچی شہرمیں کچرے کے سنگین مسائل کومدنظررکھتے ہوئے آج میں نے اس سے پوچھاکہ وہ اتنی کم مزدوری میں اتناکام کیسے کرلیتاہے تووہ بولاصاحب ہمارے لئے سوروپے مزدوری بہت ہے ،میں نے مزید حیرانگی سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہاگزربسر کیسے ہوتاہے؟بولاصاحب جی یہ کام ہاتھ والی ریڑی کرایے پرحاصل کے شروع کیاتھاپھراپنی گدھاگاڑی خریدی اورگزشتہ ایک سال سے یہ رکشہ خریدکرکام کررہاہوں،اُس کی باتیں سن کرمیری حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا،میں نے اس سے پھرسوال کیا،اس کے علاوہ بھی تمہاراکوئی ذریعہ آمدن ہے؟بولانہیں صاحب ہم سادہ لوگ ہیں،چھ سے آٹھ گھنٹے کچرااُٹھاتاہوںپھرایک دوگھنٹے آرام کرنے کے بعدبیوی بچوں کے ساتھ مل کرسارے کچرے سے لکڑی،کاغذسمیت ایسی تمام چیزیں چن لیتے ہیں جوجلانے کے کام آسکیں،حاصل ہونے والاسامان ہماری کھانے پکانے کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے ساتھ ہی قابل فروخت پلاسٹک، لوہا، سلور ،تانبہ، شیشہ،ہڈیاں، گتااورمزیدچیزیں الگ کرلیتے ہیں جنہیں فروخت کرکے روزانہ دوہزارکے لگ بھگ پیسے مل جاتے ہیں۔

باقی پچاس فیصدکچرابھی بک جاتاہے جس سے رکشہ کے پیٹرول کاانتظام ہوجاتاہے اورآپ لوگوں سے ماہانہ سوروپے مزدوری بھی مل جاتی ہے جوتقریباًبیس سے پچس ہزاربن جاتے ہیں،صاحب جی ہم دوسال پہلے بے گھراوربے زرتھے آج تین مرلے کاپلاٹ خریدچکے ہیں اوراگلے سال کمیٹی نکلے گی تواپناگھربھی تعمیرکرلیں گے،اُس مزدورکی بیان کردہ تفصیلات نے کراچی شہرمیں پھیلے کچرے کی ساری کہانی میرے سامنے کھول کررکھ دی،یہ بات توسب سمجھ سکتے ہیں کہ دہشتگردی کاصفایا کیاجاسکتاہے تو پھر کراچی جیسے شہرسے کچراصاف کرنابھی زیادہ مشکل کام نہیں،میری طرح پورے ملک کے لوگ میڈیاپرکراچی میں کچرے کے مسائل پرمبنی خبریں سن،دیکھ کرشدیدپریشان اورحیران ہیں کہ ضلعی،صوبائی اوروفاقی حکومت یعنی تمام ذمہ دارادارے کراچی شہرکوکچرے سے پاک کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟یادرہے کہ ایک قصبے کے دو،اڑھائی ہزارگھروں کاکچرااُٹھانے والامزدوراپنی محنت سے صرف دوسال کے عرصہ میں اپنے خاندان کاپیٹ پالنے کے ساتھ پلاٹ اوررکشہ خرید سکتاہے توپھرکراچی جیسے بڑے شہرکے کچرے سے حاصل ہونے والے وسائل کس قدرقیمتی ہوں گے،ایک رپورٹ کے مطابق دو کروڑ سے زائدنفوس کی آبادی پرمشتمل شہر کراچی میں 12 ہزار ٹن یومیہ کچرا پیدا ہوتا ہے۔

شہر میں ایسے چار مقامات ہیں جہاں شہری ادارے کچرا پھینکتے ہیں،رپورٹ میں بتایاگیانور محمد گاؤں کی چالیس فیصد آبادی اس کچرے سے روزگارحاصل کرتی ہے،اس گاؤں میں کچرے سے حاصل ہونے والی اشیا کی خریداری کی پانچ بڑی کباڑکی دوکانیںہیں،جہاں کچرے سے حاصل ہونے والی دھاتیں،ہڈیاں اور شیشے کی خریداری کی جاتی ہے جسے بعد میں سندھ اورپنجاب کے مختلف کارخانوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے،جہاں یہ خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں،ایک دکاندارکے مطابق وہ روزانہ سو کلو لوہا،پچاس کلوگتے کے ڈبے،تین چار کلو تانبہ پیتل اور دس بارہ کلو سلور خریدلیتاہے،کچرے سے روزگارحاصل کرنی والی ایک بچی نے انکشاف کیاکہ انہیں کئی بارکچرے سے سونااورچاندی بھی مل جاتے ہیں۔

اب چندمنٹ آنکھیں بندکرکے سوچیں اورسمجھ جائیں کہ کراچی کا اصل مسئلہ کچرانہیں بلکہ کچرے سے قابل فروخت اشیاء خریدنے والامافیاہے جوذاتی مفادکی کیلئے اداروں کوکسی صورت کام نہیں کرنے دے رہا،یقینی طورپرکراچی شہرکے ذمہ داران بھی کچرے سے حاصل ہونے والے وسائل سے مستفید ہورہے ہوں گے ورنہ یہ ہوہی نہیں سکتاکہ ضلعی،صوبائی اوروفاقی حکومت صرف ایک شہرکاکچراصاف کرنے میں ناکام ہوجائیں،افسوس صد افسوس کہ کراچی شہرمیں پھیلے کچرے اور اس مسئلہ کوحل کرنے کی بجائے اس پرہورہی روایتی سیاست نے ہمیں دنیابھرمیں تماشہ بناکے رکھ دیا ہے۔

راقم اس مسئلہ پرکسی قسم کی مزید الزام تراشی کی بجائے وزیراعظم پاکستان اورچیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرناچاہتاہوں کہ کراچی شہرمیں پھیلے کچرے کافوری نوٹس لیا جائے،اس مسئلے کومزید پیچیدہ اورسیاسی بننے سے قبل آسان ترین بنایاجائے اورنہ صرف شہرکراچی کوکچرے سے پاک کیاجائے بلکہ ایسا نظام قائم کیاجائے جس کے تحت آئندہ کبھی ایسے مسائل پیدانہ ہوں، سارے معاملے کی نگرانی رینجرزکے سپردکرکے شہرکوکچرے سے پاک کرنے لئے تمام ضروری اختیارات دیئے جائیں،ذمہ داراداروں کے ساتھ اہل کراچی سے بھی مطالبہ کرتاہوں کہ اپنے شہر کو صاف بنانے میں اپنا کردار اداکریں، کسی کوفنڈ دینے کی بجائے ہرشہری اپنے حصے کاکچراصاف کرنے کی ذمہ داری قبول کرے تویہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہوسکتاہے،آخرمیں تمام سیاستدانوں کی خدمت عرض ہے کہ کچرے پرسیاست کرنے سے سیاست چمک نہیں سکتی،جوسیاستدان کچرے کے مسئلے پرایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں گے اُن سب کی سیاست کامستقبل تاریخ ہو جائے گا۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.
03134237099