سری نگر (اصل میڈیا ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے نافذ کرفیو اور لاک ڈاؤن 27 ویں روز میں داخل ہو گیا۔
مقبوضہ وادی میں مواصلاتی بلیک آوٹ جاری ہونے کی وجہ سے وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے جب کہ جگہ جگہ بھارتی فورسز تعینات ہیں۔
وادی میں کرفیو اور پابندیوں کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء، دواؤں کی قلت ہے جس سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
مودی حکومت نے حریت اور سیاسی رہنماؤں کو گھروں یا جیلوں میں بدستور بند کررکھا ہے۔
8 ہزار سے زائد کمشیری لاپتا
دوسری جانب کشمیر میڈیا سروس نے بھارتی فورسز کی حراست سے لاپتا کشمیریوں پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 29 برسوں کے دوران 8 ہزار سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کی حراست کے دوران لاپتا ہوئے۔
کے ایم ایس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ گمشدہ افراد کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں سے متعلق کوئی معلومات نہیں دی گئیں جب کہ مقبوضہ وادی میں ہزاروں گمنام قبریں دریافت ہوئی ہیں، گمنام قبریں بھارتی فورسزکی حراست سے لاپتا ہونے والوں کی ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
کشمیر میں اب کیا ہورہا ہے؟
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں 6 کشمیری شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔
کشمیر میں حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔