لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی وزیر اعظم کی جانب سے بریگزٹ کو عملی جامع پہنانے کے لیے پارلیمان معطل کرنے کے متنازعہ فیصلے پر عوام میں شدید برہمی پائی جا رہی ہے۔ ہفتے کو ملک گیر سطح پر ہوئے احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں لوگ شریک ہیں۔
برطانوی دارالحکومت لندن کے عموما کافی مصروف وائٹ ہال روڈ پر سینکڑوں افراد نے ہفتے اکتیس اگست کو احتجاج کیا۔ برطانوی عوام وزیراعظم بورس جانسن کے برطانوی پارلیمان معطل کرنے کے فیصلے پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے ان کی سرکاری رہائش گاہ ‘ٹین ڈاننگ اسٹریٹ پر بھی احتجاج کیا۔
اس موقع پر لوگ کافی برہم دکھائی دیے۔ ‘بورس جانسن، شرم کرو، ‘ٹرمپ کی کٹھ پتلی اور ‘جھوٹے جانسن، شرم کرو کے نعرے گونجتے رہے۔ لندن کے علاوہ برطانیہ کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے۔
وزیر اعظم جانسن نے رواں ہفتے بروز بدھ ملکہ ایلیزبتھ کے پاس یہ درخواست دائر کرائی کہ وہ ستمبر کے وسط سے لے کر اکتوبر کے وسط تک پارلیمان کو معطل کر دیں۔ بورس جانسن اس دوران پارلیمان کے نئے سیشن میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کو عملی جامع پہنانے کے لیے اپنا منصوبہ پیش کریں گے۔
ویسے تو پارلیمان کی معطلی کوئی انہونی بات نہیں لیکن چوں کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن اکتیس اکتوبر ہے، اس مخصوص وقت پر یہ اقدام کافی تنقید کی زد میں ہے۔ اس عمل سے بریگزٹ پر پارلیمان میں بحث کا وقت عملا بہت کم رہ جائے گا اور وہ ارکان جو بریگزٹ رکوانے کے لیے سرگرم ہیں، انہیں اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مناسب وقت نہیں مل سکے گا۔
برطانیہ میں آج بروز ہفتہ ملک گیر وسیع تر احتجاج کی کال بریگزٹ کے خلاف سرگرم مہم کے ارکان نے جاری کی تھی۔ لندن کے علاوہ برمنگہم، برائٹن، برسٹل، کیمبرج، لیور پول، نیو کاسل، نور وچ، آکسفورڈ اور یارک میں بھی احتجاج جاری ہے۔