امریکا نے افغانستان کو مسخر کرنے کی 18 برسوں کی کوشش میں کھربوں ڈالر لاحاصل جنگ میں جھونک دیئے۔امریکا کی طویل ترین تاریخی جنگ میں افغان عوام کو بھی ناقابل برداشت نقصانات کا سامنا ہوا ہے ۔ امریکا یہ نہیں کہہ سکتا کہ افغانستان کی جنگ میں صرف اُسے ہی نقصان پہنچا ہے ۔ بلکہ افغانستان کی 18 برس کی جنگ میں افغان عوام ، افغانستان اور بالخصوص پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ جس کے مضر اثرات اب بھی کئی دہائیوں تک چھائے رہیں گے ۔ افغان طالبان کی امارات کے خلاف امریکی جنگ کا آغاز اُس وقت ہی ہوگیا تھا جب امریکا نے صلیبی جنگ شروع کرنا کا اعلان کیا اور پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دہمکی دی تھی۔18برسوں بعد بھی اس جنگ کے خاتمے کے ایسے آثار سامنے نہیں ہیں جس سے افغانستان میں پائدار و مستحکم امن کا آغاز ہوسکے ۔ افغانستان سے امریکی و غیر ملکی افواج کے انخلا کو امن سے مشروط کیا گیا ہے کہ جب تک غیر ملکی افواج کے انخلا کامرحلہ مکمل نہیں ہوگا اور امریکا اپنی افواج کو افغانستان سے نہیں نکالے گا ، افغان طالبان، سیکورٹی فورسز پر حملے جاری رکھیں گے اور کوئی سیز فائر نہیں ہوگا ۔ اس وقت افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ مذاکرات کا نواں دور اپنے اختتام مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔افغان طالبان ، افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے سے لاتعلق ہیں۔ کیونکہ معاہدے کے فوراََ بعد ایک ہفتے میں انٹرا افغان کانفرنس کا انعقاد ہوگا اور افغانستان کے نظام حکومت پر افغان عوام و سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد عبوری حکومت کے خدوخال پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
دوحہ امن مذاکرات میں کابل انتظامیہ کو افغان طالبان نے کسی بھی مرحلے میں شریک نہیں ہونے دیا گیاکیونکہ ان کے نزدیک کابل انتظامیہ ، عوام کی نمائندہ حکومت نہیں بلکہ امریکی کٹھ پتلی حکومت کی حیثیت رکھتی ہے۔دو بار صدارتی انتخابات بھی اس لئے موخر کئے جاچکے ہیں کیونکہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر تیزی لیکن بظاہر سست روئی سے کام ہورہا تھا ۔ دوحہ میں نویں دور میں افغانستان کے لئے امریکی افواج کے کمانڈر اسکاٹ ملر نے بھی خصوصی شرکت کی اور امریکی افواج کے انخلا سمیت تکینکی کمیٹی کی جانب سے مرتب کئے گئے معاہدے کو فائنل کیا۔ ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ افغانستان سے پہلے ہی مرحلے میں افواج کے انخلا پر تیار نہیں ہیں۔دوئم افغان طالبان کی جانب سے اپنے قیدیوں کی رہائی کو امن معاہدے سے مشروط کردیا گیا ہے۔ افغا ن طالبان معاہدے پر دستخط سے قبل اپنے اسیروں کی رہائی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔جس پر امریکی انتظامیہ کو تحفظات ہیں اور بار بار مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہونے کی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ بھی ہے۔
2020امریکی صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ امریکی صدر اپنی عوام سے افغانستان سے فوج بلانے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ لہذا اپنے انتخابی منشور پر عمل پیرا ہونے کے لئے صدر ٹرمپ کا جلد از جلد افغانستان امن حل کا معاہدہ ہونا ضروری سمجھتے ہیں لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ و بعض کانگریس اراکین و سینیٹ کی جانب سے افغانستان سے مکمل فوجی انخلا و مستقبل میں افغان طالبان کا القاعدہ نیٹ ورک سے لاتعلق رہنے کی اطمینان ہونے تک نصف تعداد افغانستان میں رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا کے نزدیک 18 برس کی طویل جنگ کے بعد خطے سے خود کو مکمل نکال لینا امریکی مفادات کے لئے اچھا فیصلہ نہیں ہے۔
وسیع اور عام توقعات کے علاوہ، امن مذاکراتی عمل کے مخالفین بھی ہیںجن میں بطور خاص کچھ جنگجو افراد، لنڈسی گراہم امریکی سینیٹ کے ممبر اور افغانستان کے بعض گروپس امریکی افواج کے انخلا کے مخالف ہیں۔لینڈسی گراہم امریکی سینیٹر نے متعدد بار ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ” وہ افغانستان سے مکمل انخلا نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو چاہیے وہ افغانستان میں فوجی تعداد کم نہ کریں۔ کیوں کہ اس ملک میں امریکی کی موجودگی امریکی سلامتی کے لیے اہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کانگریس کو اس حوالے سے ایک مراسلہ بھیج دیا ہے، تاکہ افغانستان سے مکمل انخلا کا راستہ روکا جا سکے۔ اس سے قبل بھی متعدد امریکی جرنیلوں نے ان جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ امریکی فوجی افغانستان میں برقرار رہیں۔ وہ افغان حکومت کی مدد جاری رکھیں، تاکہ 18 برس سے افغان عوام کے قتل عام کا سلسلہ جاری رہے”۔امریکی افواج کے انخلا کے مخالفین افغان طالبان کی یقین دہانیوں کو ماننے کو تیار نظر نہیں آرہے۔امارت اسلامیہ کا مؤقف ہے کہ” افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کسی کے لئے نہیں بلکہ اس میں شامل تمام فریقوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ خوددار اور جنگ پسند سیاستدانوں کو عوامی مفاہمت پر غور کرنا چاہئے۔ ان لوگوں سے آگاہ رہیں جو جنگ کا شکار ہیں۔
افغانستان میں امریکی قبضے کے تسلسل پر زور دینے والوں کو گذشتہ اٹھارہ سالوں کے عمل کو محتاط انداز میں مطالعہ کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ عوام کی جانب سے جاری مذاکرات اور امریکی افواج کے انخلا کی امیدوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہئے۔ یہ معلوم ہے کہ عام لوگ اس عمل کے بارے میں پر امید ہیں۔ کوئی بھی خود ساختہ سیاست جو اس عمل کی مخالفت کرتی ہے وہ عملی طور پر عوامی توقعات اور معاشرتی شعور کے منافی ہے”۔ امریکا و افغان طالبان افغان امن حل مذاکرات کے اختتام کے جانب بڑھ چکے ہیں ۔ صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کا افغان امن حل پر ایک صفحے پر نہ ہونا، بار بار تبدیل ہوتے بیانات افغان امن حل مذاکرات کو غیر سنجیدہ بنا تے رہے ہیں۔امریکی صدر نے ایک عالمی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک کروڑ انسانوں کو ہلاک کرکے افغانستان کی جنگ جیت سکتے ہیں لیکن وہ کریں گے نہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا نہیں کیا جائے گا اورامریکی فوج کی تعداد 8600تک لے آئیں گے۔ امریکی صدر ، وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے موقع پر بھی ایسا ہی متنازعہ بیان دے چکے تھے جس کی وجہ سے افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخند زادہ نے امریکا پر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ امریکا مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہا ، جس کے بعد آٹھواں دور ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا ۔ اس وقت قوی امید کی جا رہی تھی کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ پر دستخط ہوجائیں گے ، لیکن نویں دور کی طرح معاملات میں کچھ سقم باقی ہے۔ صدر ٹرمپ کے انٹرویو سے قبل جوائنٹ چیفز آف اسٹاف، میرین جنرل جوزف ڈنفرڈ نے28اگست کو پینٹاگان میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ فی الوقت افغانستان سے امریکی فوج کے لیے ‘انخلا’ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔
رواں سال کے دوران کسی وزیر دفاع یا چیئرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کی جانب سے پینٹاگان کی یہ پہلی اخباری بریفنگ تھی، جو ڈنفرڈ دے رہے تھے۔جنرل ڈنفرڈ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امن سمجھوتہ ‘جوں کے توں قسم کی صورت حال’ کو تبدیل کرے گا، جو 18 برس طویل تنازع کے حل کے لیے درکار ہوگا۔ دوسری جانب اسی دن امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکہ کبھی بھی افغانستان میں اپنی فوج کو مستقل طور پر رکھنے کا خواہاں نہیں رہا۔ اس سے قبل17 اگست کو وائٹ ہاوس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیروں سے بات چیت کی جو بہت شاندار رہی۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن اس کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔20 اگست کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کا اب بنیادی طور پر پولیس فورس کا ”مضحکہ خیز” کردار رہ گیا ہے، یہ عندیہ دیتے ہوئے کہ لڑائی کے 18 برس بعد وہ امریکی فوج میں کمی لا سکتے ہیں۔
21 اگست کووائٹ ہائوس میں رومانیہ کے صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا معاہدہ خود ان کے یا طالبان کے لیے قابلِ قبول بھی ہو گا یا نہیں۔صدر ٹرمپ کا بیان ایسے وقت سامنے آیا جب افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مجوزہ امن معاہدے پر بات چیت میں افغانستان کے لئے مقرر امریکی فوجی کمانڈ کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر کے ساتھ 9th رائونڈ میں شریک ہونے جا رہے تھے۔22 اگست کو جنرل اسکاٹ ملر دوسری مرتبہ نویں دوحہ مذاکرات معاہدے کی باریکیوں پر اتفاق رائے کے لئے شریک ہوئے تاہم معاہدے پر دستخط سے قبل، کابل حکومت سے بھی مشاورتی عمل کیا جاتا ہے، حالاں کہ افغان طالبان کا ایک مذاکراتی دور بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ نہیں ہوا اور اب اشرف غنی سمیت کئی صدارتی امیدوار افغان طالبان سے مذاکراتی عمل سے خوش نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوتے رہے ہیں۔تاہم دونوں فریقین نے آٹھویں دوحہ افغان امن تنازع حل کے مذاکراتی دور پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔افغان طالبان اور افغانستان سے سیاسی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان دوحہ بین الافغان کانفرنس کے بعد بعض میڈیا ہائوسز ، امریکی و افغان سفارتی ذرائع نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ افغان طالبان اب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز پر حملے نہیں کریں گے اور پُر تشدد واقعات کم کئے جانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ لیکن افغان طالبان نے اس خبر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر من گھڑت قرار دیا تھا کہ افغان طالبان عام شہریوں پرنہیں بلکہ قابض مسلح افواج و اِن کے سہولت کاروں پر حملہ کرتی ہے نیز دوحہ مذاکرات کے کسی بھی دور میں سیزفائر پرکبھی اتفاق نہیں ہوا ۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کے مطابق دو نکات اور زلمے خلیل زاد کے مطابق چار نکات پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ جنگ بندی کے کسی بھی قسم کے معاہدے میں کابل انتظامیہ کو مذاکراتی عمل میں شریک کرنے میں آمادگی پر افغان طالبان نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ۔دوسری جانب پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تادم تحریر مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے سبب التوا کا شکار ہیں ، امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ، افغان طالبان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ دوحہ معاہدے سے قبل مذاکرات کے لئے آمادہ کرے ۔لیکن پاک۔ بھارت کشیدگی کی وجہ سے پاکستان اعلانیہ مذاکرات نہ کراسکا اور امریکا نے کابل انتظامیہ کی شرکت کے بغیر ہی دوحہ معاہدیہ پر دستخط کا فیصلہ کرلیا ۔ افغان طالبان ماضی کے مقابلے میں اپنے سیاسی رسوخ کو تیزی کے ساتھ پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ قطر ، انڈونیشیا، ملائشیا ،ازبکستان، روس، ایران اور جرمنی تک پھیلا چکا ہے۔
پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کے تعلقات کو خراب کرنے کی سازش کچلاک کوئٹہ کی ایک مسجد میں افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخند زادہ کے بھائی ملا حافظ اللہ پر خود کش حملے کی صورت میں سامنے آئی۔ جو مدرسے کے مہتم کے حج جانے کے سبب نماز پڑھا رہے تھے۔ اس حملے میں امیر افغان طالبان کے بھائی جاں بحق ہوئے جبکہ دوسرے واقعے میں مدرسے کے سیکورٹی گارڈمحمداعظم اخند زاد کو ٹارگٹ حملے میں نشانہ بنایا گیا ۔ ذرائع کے مطابق مدرسے کا سیکورٹی گارڈ(افغان مہاجر)مسجد بم دھماکے میں ملوث تھا ۔ واضح رہے کہ کچلاک کوئٹہ شہر سے 25کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے۔یہاں سے دو اہم شاہراہیں نکلتی ہیں جن میں سے ایک شمال کی جانب پشین اور افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کی جانب جاتی ہے جبکہ دوسری شاہراہ شمال مشرق میں ژوب اور خیبر پشتونخواہ کے علاقے جنوبی وزیرستان کی جانب نکلتی ہے۔اس علاقے کی آبادی مختلف پشتون قبائل پر مشتمل ہے تاہم ان میں اکثریت کاکڑ قبائل کی ہے۔گزشتہ دو دہائی سے افغان مہاجرین کی بھی ایک بڑی آبادی کچلاک میں مقیم ہے۔کوئٹہ شوریٰ کی موجودگی کی مبینہ و غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے یہ علاقہ عالمی ذرائع ابلاغ سمیت امریکا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے۔افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے دوسری اہم سازش بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اقوام متحدہ کے قرارداوں کے خلاف اقدامات کو افغان امن حل کے ساتھ جوڑ جانا تھا۔پاکستانی افواج کو شمال، مغرب سے مشرقی سرحدوں پر کنٹرول لائن پر لانے اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر پر ممکنہ حملے و ایٹمی جنگ کی بھارتی دھمکی کے بعد افغانستان تنازع سے توجہ ہٹانا تھی ۔ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں آئینی جارحیت نہ کرتاتو پاکستان کی یکسوئی متاثر نہ ہوتی اور افغان امن کے حوالے سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پہلا باضابطہ دور ہوچکا ہوتا ۔
کچلاک واقعہ اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی شدت کے سبب پاکستان کی توجہ افغان امن حل سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ۔دوحہ مذاکرات کا منطقی انجام، اختتام کی جانب گامزن ہے۔ ذرایع کے مطابق امریکا اپنی افواج کو محدود پیمانے پر افغانستان سے انخلا کے لئے افغان طالبان سے سیکورٹی پیس معاہدے کے نہ ہونے کا متبادل نئی کابل حکومت سے کرنے کا دوسرا آپشن بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ ا فغان طالبان کو جاری انتظامی سیٹ اپ میں شریک ہوجائے جب کہ افغان طالبان اقتدار کے مرحلے کو افغانستا ن دیگر اسٹیک ہولڈر کے ساتھ طے کرنا چاہتا ہے۔ امریکی افواج کا انخلا ہر صورت طے ہے ، لیکن حالات اس نہج پر آچکے ہیں کہ امریکا کو کابل انتظامیہ کی فوجی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا ۔ آنے والے دنوں میں حالات پر منحصر ہے کہ اگر نئی کابل انتظامیہ افغان طالبان سے قابل قبول معاہدہ نہیں کرتی تو افغان طالبان ، افغان سیکورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہیں گے ویسے بھی افغانستان میں 60فیصد سے زائد حصے پر افغان طالبان کی مکمل عمل داری ہے ۔ جبکہ15فیصد حصہ شدید متاثرہ ہے ۔ ان حالات میں صرف 10 سے 20فیصد حصے میں صدارتی انتخابات کی عوامی حیثیت نہیں ہے۔ بار بار موخر ہونے والے 28ستمبر کو ممکنہ انتخابات افغانستان کے عوام کی مکمل نمائندگی نہیں ہوگی۔
اپوزیشن اور سیاسی جماعتیں اس بات کو بخوبی جانتی ہیں کہ امریکا کا افغان طالبان سے نئے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے بعد باقی ماندہ افغانستان پرقابض رہنا ناممکن ہوجائے گا اور کابل کو افغان طالبان اور اُن چھوٹے گروپوں کے لئے خالی کرنا ہوگا جن کے ساتھ افغان طالبان ، اس وقت بھی دوحہ میں سائیڈ لائن مذاکرات کررہے ہیں ، عالمی ذرائع ابلاغ میں خبر آئی تھی کہ افغان طالبان نے عبوری حکومت کے معاہدہ پر افغانستان کے دیگر گروپوں سے معاملات طے کرکے دستخط کردیئے ہیں لیکن افغان طالبان نے ان خبروں کی سختی سے تردید کی ۔ زلمے خلیل زاد نے بھی افغان طالبان کی تردید کی، توثیق کی کہ عبوری حکومت کا ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا گیا ۔ عبوری حکومت کے حوالے سے انٹرا بین الافغان کانفرنس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا اور افغان طالبان دیگر گروپوںکی مشاورت کے بعد افغان حکومت کے انفرا اسٹرکچر کو طے کریں گے ۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق” 80فیصد سے زاید متنازع امور طے پا چکے ہیں” ۔
ایک طرف افغان طالبان ہیں جن کا اس وقت ملک کے تقریباً دو تہائی حصے پر غلبہ ہے اور دوسری طرف کابل حکومت کے وار لارڈز ہیں جو اقتدار سے دست کش ہونا نہیں چاہیں گے اس سوال پر کہ کیا طالبان پورے ملک کو امارت اسلامی کی شکل میں واپس ڈھالنا چاہتے ہیں؟ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہمارا مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ اس کا ظاہری ڈھانچہ کیا ہوگا فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وقت آنے پر علما، محققین اور افغان ذمہ دار اہلکار مل کر طے کریں گے۔امریکی نمائندوں سے کہا جاتا ہے کہ ”آپ نے سعودی عرب کو تسلیم کر رکھا ہے ہم بھی اس کے بنیادی ڈھانچے سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوں گے۔ اگر آپ سعودی عرب کو تسلیم کرسکتے ہیں تو ہمیں تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر آپ یہ کرلیں تو اس کے بعد ہم باہمی تعاون، دوستی اور اقتصادی تعلقات کے حوالے سے آپ کی” ترجیحات” کا خیال رکھیں گے۔افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اور اقتدار کا فارمولہ طے ہونے کی راہ میں ظاہری ڈھانچہ میں کوئی مشکلات حائل نہیں ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغان طالبان کو مخالف قوتوں کو شراکت اقتدار کے لئے مذاکرات سے راضی کرنا ایک دشوار گذار عمل ہوگا ۔
ممکنہ حد تک یہ معاملہ افغان طالبان پر چھوڑا جارہا ہے کہ وہ چھوٹے گروپوں کے ساتھ معاملات کس طرح طے کرتے ہیں۔ اگر چھوٹے گروپس ، شراکت اقتدار کے فارمولے میں پُر امن طور پر اپنے مینڈیٹ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو یقینی طور پر افغان طالبان اور چھوٹے شدت پسند جنگجو گروپوں کے درمیان محاذ آرائی ہوسکتی ہے۔ نیز افغان طالبان کے لئے سب سے اہم مسئلہ افغان سرزمین میں موجود وہ عناصر بھی ہیں جو پاکستان میں مختلف آپریشنز کے نتیجے میں فرار ہوکر پاکستان کی سرحدوں کے قریب موجود ہیں۔اس حوالے سے جنوبی بھارت و مقبوضہ کشمیر کا علاقہ آئیڈیل مانا جارہا ہے کہ بھارت ، ہندو شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی ملی بھگت سے کالعدم تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کی سرزمین فراہم کریںگے۔جس طرح عراق و شام میں داعش شکست کے بعد منتشر ہوئی اسی طرح کالعدم ٹی ٹی پی ، حزب الاحرار سمیت متعددکالعدم تنظیمیں اور نام نہاد علیحدگی پسند گروپس بھی افغانستان میں شکست سے دوچارہوکر پہلے مرحلے میں افغانستان میں امن مذاکرات کے بعد انتقال اقتدار کو ناکام بنانے کے لئے عام شہریوں کو جانی نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندیاں کریں گے ۔ نیز مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا کرافغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا امکان نظر آتا ہے۔ افغانستان میں دیرپا امن کی منزل جتنی نزدیک نظر آتی ہے وہ اُس قدر ہی مشکل و دشوار گذار عمل بھی ثابت ہونے کے خدشات بہر صورت موجود رہیں گے۔