وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق عالمی رہنمائوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں انہوں نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور اردن کے شاہ عبداللہ سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور انہیں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔ اسی طرح سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ان کا رابطہ ہوا جس پر انہوں نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ کشمیریوں کو یواین کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت ملنا چاہیے۔وزیراعظم عمران خان کا مختلف ملکوں کے سربراہان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی جابرانہ پالیسیاں سنگین انسانی بحران کا باعث ہیں۔ بھارت متنازعہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔فرانس کے صدر اور اردن کے شاہ عبداللہ نے بھی مسئلہ کشمیر کے پر امن حل پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئے تقریبا چار ہفتے گزر چکے ہیں۔مسلسل کرفیو سے وادی کشمیر کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع ہے۔ اہل کشمیر کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ لوگوں کا کاروبار نہیں رہا۔ ان کے سیب اور دیگر میوہ جات کے باغات برباد کر دیے گئے ہیں۔ سیاحت کے وہ علاقے جہاں رش ختم نہیں ہوتا تھا وہاں کچھ نظر نہیں آتا ۔ ہزاروں کی تعداد میں ہوٹل بند پڑے ہیں۔ قابض انتظامیہ نے دس ہزار سے زائد ملازمین کو ان کی نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ کشمیر کے مکمل لاک ڈائون سے مقامی باشندوں کو خوراک، ادویات اور بچوں کیلئے دود ھ تک نہیں مل رہا۔ صورہ جیسے علاقے جہاں تحریک آزادی عروج پر ہے اور مشتعل کشمیریوں نے بھارتی فوج کے علاقہ میں داخل ہونے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں یہاں صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بھارتی فوج نے پچھلے تقریبا چار ہفتوں میں صورة میں داخل ہونے کیلئے تمام حربے اختیار کئے ہیں مگر کامیابی نہیں ہو سکی۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بین الاقوامی میڈیا نے صورہ کو کشمیر کا غزہ قرار دیا ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت ان حالات سے سخت پریشان ہیں۔ پوری دنیا میں بھارت کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ کوئی ایک کشمیری بھی بھارتی حکومت کے حق میں ایک لفظ تک بولنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
غاصب ہندوستانی فوج بدترین حالات دیکھ کر بھی صورہ کا کرفیو ختم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہاں کرفیو ہٹا کر لوگوں کو خوراک، ادیات اور دوسری اشیاء فراہم کرنے کی رسائی دی گئی تو دوسرے علاقوں میں بھی پھر اسے یہی کچھ کرنا پڑے گا ، یہی وجہ ہے کہ ریاستی انتظامیہ اور فوج اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں مکمل کرفیو لگا رکھا ہے تاہم اس کے باوجود کشمیری روزانہ دو سے تین گھنٹے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت سمیت بھارت نواز لیڈروں کو بھی نظربند رکھا گیا ہے مگر اس کے باوجو دکشمیریوں کی اس قدر تربیت ہو چکی ہے کہ دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ بغیر قیادت کے لوگ کس قد رمنظم اندا ز میں احتجاج کر رہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں نے یوتھ لیگ مزاحمتی تحریک کے نام سے ایک نیا پلیٹ فارم بنا لیا ہے جس کے تحت پوسٹرز اور اشتہارات شائع کر کے باقاعدہ احتجاجی شیڈول جاری کیا جاتاہے اور انتہائی منظم انداز میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
بھارتی فوج کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کیلئے تمام حربے اختیار کر رہی ہے۔ پیلٹ گن کے چھرے چہروں اور سینوں پر برسائے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیری بھارت سرکار کا یہ فیصلہ کسی طور قبول کرنے کیلئے تیا رنہیں ہیں۔یہ اسی احتجاج کا اثر ہے کہ بھارتی فوج خوفزدہ ہو کر گلی محلوں میں بڑے پیمانے پر نئے بنکر بنا رہی ہے تاکہ اس مزاحمتی قوت کو کسی طرح کچلا جاسکے۔ حقیقت ہے کہ بھارت مظلوم کشمیریوں کو دبانے کیلئے ہر حربہ اختیار کر رہا ہے مگر وہ اس میں پہلے کامیاب ہوا ہے اور نہ بعد میں ہو گا۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی زبردست عروج پر پہنچ چکی ہے۔ بھارت کی مودی سرکار نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کر کے آگ سے کھیلنے کی کوشش کی ہے اور اس کا انجام ان شاء اللہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی طرح بھارت کی دیگر ریاستوں کی بھی علیحدگی کی صورت میں نکلے گا مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی قومی پالیسی پر کاربند رہے او رکسی قسم کے بیرونی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت کی جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے عالمی رہنمائوں سے رابطوں کا عمل قابل تحسین ہے اور یہ ملک بلاشبہ ہماری طاقت ہیں۔ حالیہ دنوںمیں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اگرچہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایوارڈ دیے جانے کو اچھا نہیں سمجھا گیا لیکن اس کیلئے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں کتنی کوشش کی ہے کہ یو اے ای کو بتایا جائے کہ آپ اپنا یہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کشمیر کے موجودہ حالات کی وجہ سے آگے لے جائیں۔ اگر پاکستان یو اے ای کی قیادت سے رابطہ کر کے زور دیتا اور مودی کو ایوارڈ دینے کا عمل ایک ، ڈیڑھ ماہ کیلئے ملتوی کر دیا جاتا تو اس کا میسج بھی یقینی طور پر بہت اچھا جاتا۔ باقی جہاں تک ملکوں سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ دوسرے ملکوں سے تجارتی و سفارتی تعلقات قائم رکھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر چار جنگیں ہونے کے باوجود اگر ہمارے حکمران اپنے ازلی دشمن بھارت سے طویل عرصہ تجارت اور دیگر ہر قسم کے تعلقات رکھ سکتے ہیں تو پھر دوسروں کو ایسا کرنے پر کیسے الزام دیا جاسکتا ہے؟
سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان نے عمران خان سے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران واضح طور پر کشمیریوں کویو این کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینے کی بات کی ہے مگر بعض نام نہاد دانشوروں کی طرف سے اس کے خلاف بھی غلیظ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ اس نے انڈیا کی کمپنی کے شیئر کیوں خریدے ہیں؟بات یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا میں رہنا ہے۔ ہم نے اپنے دوست بنانے ہیں ملکوں سے تعلقات نہیں بگاڑنے۔ یہی وہ ملک ہیں جنہوں نے انڈیا کے خلاف جنگیں ہوں، ایٹمی دھماکے کرنے ہوں یا پاکستان کو درپیش کوئی اور معاملہ ہو ، انہوںنے ہمیشہ اپنی تجوریوں کے منہ کھولے اور پاکستان کی ہر ممکن مددوحمایت کی ہے۔محترم مجیب الرحمن شامی درست کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اور سٹاک ایکچینج بہتر بنانے کیلئے سعودی عرب مشکل وقت میں پاکستان کی مدد نہ کرتا تو آج ڈالر چار سو روپے کا ہو چکا ہوتا، تو بات یہ ہے کہ ہمیں مشکل وقت کے دوستوں کو بھلانا نہیں چاہیے۔
اگر ہم سوشل میڈیا پر کئے جانے والے مذموم پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر ملکوں سے تعلقات خراب کرنا شروع کر دیں تویہ چیز دشمن کیلئے سب سے زیادہ خوشی کا باعث ہو گی۔ ہمیں مسلم امہ سے اپنے تعلقات بہتر اور مضبوط بنانے ہیں، مایوسیاں نہیں پھیلانیں۔ یہی یواے ای اور یہی سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرتے رہے ہیں۔آئندہ بھی یہ ملک پاکستان کے دست وبازو بنیں گے اور وہ وقت قریب ہے جب بیرونی قوتوں کے کلچ ٹوٹیں گے اور پاکستان اور سعودی عرب جیسے ملک ان شاء اللہ عالم اسلام کی قیادت کرتے دکھائی دیں گے۔
آخر میں ، میں سعودی سفارت خانہ کے میڈیا سیل کے انچارج علی خالد الدوسری کو اپنی ذمہ داریاں ملنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوںنے صحافی برادری سے خصوصی طور پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔وہ میڈیا اور رابطہ کاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں چند دن قبل ہی سعودی سفارت خانے میں میڈیا سیل کا نگران بنایا گیا ہے۔ وہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی زیر قیادت جس طرح متحرک انداز میں ملاقاتیں اور رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں اس کے یقینی طور پران شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے علی خالد الدوسری نے واضح طور پر کہا ہے کہ سعودی عرب اورپاکستان دو بھائیوں کی طرح ہیں، دونوں ملکوں کومشترکہ مسائل کا سامنا ہے۔ ہم مل کران مسائل اورچیلنجزسے عہد ہ برآ ہوسکتے ہیں۔ہم امید کرتے ہوئے سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی اور علی خالد الدوسری جیسے ذمہ داران کی کاوشوں سے پاک سعودی تعلقات میں مزید مضبوطی و استحکام آئے گا۔