تحریک انصاف حکومت کا منشور تھا کہ انصاف کی فراہمی حکومتی اولین ترجیح ہے۔ لیکن صوبے پنجاب میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ بااثر سیاسی شخصیات وزیراعلیٰ شکایات سیل بند کروانے میں کامیاب ہوگئیں ہیں۔حالانکہ وزیر اعلیٰ شکایات سیل پنجاب میں موصول 47 ہزار شکایات کا ازالہ کر دیا گیاپھر بھی ایسی صورت حال کیوں پید اہوئی کہ وزیر اعلیٰ شکایات سیل پنجاب کے عملہ کو کام سے روک کر ادارہ بند کرنے کی تجویزدی گئی۔بتایا جاتاہے کہ سابق چیئر مین وزیراعلیٰ شکایات سیل ملک اسد کھوکھراوروائس چیئرمین ناصرسلمان کے درمیان محاذآرائی کی بناء پر وزیر اعلیٰ شکایات سیل بند کیا گیا ہے۔لیکن حقیقت یہ نہیں۔
ماہرین، دانشوروں کا کہنے ہے کہ ویسے تو عام انسان کے لئے کوئی بھی کام آسان نہیں۔ وہ جائز کام کے لئے بھی بھٹکتا پھرتا ہے اور اشرافیہ ناجائز کام بھی نہایت آسانی سے کروا لیتی ہے۔ عام انسان انصاف کے حصول کے لئے مارا مارا پھرتا ہے اور پھر بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انصاف تو صرف اور صرف اشرافیہ کے لئے ہے اور عام انسان یا کسی غریب کے لئے اگر کچھ ہے تو وہ ہے قانون۔ اس قانون و انصاف کی جنگ میں غریب کو ملتا ہے صرف قانون اور جس کے پاس پیسہ ہے وہ حاصل کرتا ہے انصاف۔ اگر کوئی عام انسان اپنے کاغذات کی گمشدگی یا کسی معمولی نوعیت کے واقعے کی رپورٹ درج کروانے تھانے جاتا ہے تب بھی اس کو ہزار قانون بتائے جاتے ہیں اور جب ہرا نوٹ دکھا دو تو اس غریب پر ڈیوٹی آفیسر کو ترس آ ہی جاتا ہے۔
یہاں اکثر ظالم ظلم کرتا ہے اور سلاخوں کے پیچھے بھی وہی ہوتا ہے جس پر ظلم ہوتا ہے اور پھر کورٹ کچہری کے خرچے اور وکیل کے اخراجات کا متحمل نہ ہونے کے سبب وہ مظلوم جیل میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھی کاٹ لیتا ہے اور پھر اس کے دل میں قانون کا ڈر نہیں بلکہ اس ظالم کا ڈر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر وہ مظلوم قانون توڑنے سے گریز نہیں کرتا مگر اس ظالم کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے جس کا خوف اس کے دل میں بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اس کا یقین انصاف سے اٹھ جاتا ہے۔ اور یہ ہزاروں لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اس ملک میں اس وقت تک قانون کی بالادستی ممکن نہیں جب تک ہماری پولیس اور وکلاء صرف اور صرف قانون کی پاسداری کریں۔ یہاں سچ اور جھوٹ کی جنگ میں اکثر جھوٹ جیت جاتا ہے۔ یہاں انصاف کی تلاش میں اکثر عام انسان قانونی جنگ لڑتے لڑتے اس دنیا سے چلا جاتا ہے، ایسے بھی فیصلے دیکھنے کو ملے ہیں جب انصاف کے حصول کے طلبگار کو انصاف ملتا ہے تو وہ منوں مٹی تلے ہوتا ہے۔ ظلم کی مختلف اشکال ہیں اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بروقت انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی ظلم کی تعریف میں آتا ہے۔
ہر شہری کو سستا اور فوری انصاف وکلاء اور عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے نتیجہ میں عام انسان کے اندر مایوسی و ناامیدی پیدا ہو رہی ہے۔ مظلوم کو سستا اور فوری انصاف دیے بغیر کوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔ ہر شخص کو قانون و آئین کی رو کے مطابق فوری انصاف وکلاء اور عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس وقت عام انسان حصول انصاف کے لئے پریشان نظر آ رہا ہے۔ موجودہ دور میں عام انسان کو شکایت ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے باعث موجودہ نظام موثر نہیں ہے۔
جس ملک کا حکمران خود قانون کے سامنے جھکنے والا ہوگا اس ملک میں کوئی بھی عدل کی میزان کو نہیں جھکا سکے گا۔ جو حکمران خود رعایت کا طالب نہ ہو کوئی اس کی مروت آزمانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ جو حکمران حضرت عمرؓ بن خطاب کی طرح اپنے بیٹے کو کوڑے کھاتے دیکھنے کی تاب رکھتا ہو اس کے کوڑے سے کوئی عذاب نہیں بچ سکتا۔ہماری یہاں قانون کے راستے میں کبھی دولت حائل ہو جاتی ہے کبھی قرابت آڑے آتی ہے کبھی مروت جلوہ دکھاتی ہے کبھی مصلحت فتنہ دکھا دیتی ہے کبھی سیاست مراد پا جاتی ہے۔اس ملک میں اس وقت تک قانون کی بالادستی ممکن نہیں جب تک انصاف کا حصول عام انسان اور اشرافیہ کے لئے یکساں نہ ہو۔
ضرورت اس امرء کی ہے تحریک انصاف حکومت اشرافیہ کی بجائے غریب عوام کو انصاف فراہم کریں اور وزیر اعلیٰ شکایات سیل پنجاب جس نے موصول 47 ہزار شکایات کاازالہ کیا ہوا کو فوری بحال کیا جائے تاکہ عوام کا اعتماد حکومت پر بحال رہے۔ وزیر اعلیٰ شکایات سیل پنجاب بند ہونے سے ثابت ہوگیا کہ ہر قانون عام انسان کے لئے اور انصاف صرف اشرافیہ کے لئے!! یہی تضاد ہمارے مسائل کو جنم دیتا ہے جس کے خاتمہ کی ضرورت ہے۔