پاکستانی حکمران طبقہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کیے ہوئے اِس بات کا دعویٰ کررہا ہے کہ اُس نے مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا میں سب کے سامنے رکھ دیا ہے،کشمیر میں بھارتی مظالم کی صورت میں کیا ہورہا،پوری دنیا کو بتا اور دکھلا دیا، مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے آخری حدوں تک جائیں گے اور یہ کہ دنیا ہماری بات سُن رہی،جو نہیں سُن رہے ،وہ بھی ایک نہ ایک دن ضرورہماری بات سُنیں گے، پاکستانی حکمرانوں کی ساری باتیں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری بات سنجیدہ ہوکرکوئی بھی نہیں سُن رہااور نہ ہی ہماری باتوں پر سریس ہوکر کوئی کان دھر رہا،اقوام ِمتحدہ کا اجلاس ہوجانا بھی اُن کی اپنی مرضی،آخر کشمیر کا حل جو اپنی امنگوں کے مطابق نکالنا،ورنہ یہ اجلاس بھی نہ ہوتا،پھر یہ کہ یہ اجلاس چین کی مدداورکوششوں سے ہورہا،ورنہ کبھی نہ ہوتا،کشمیر کا مسئلہ 50 سال بعد اقوام ِ متحدہ میں سُنا جانے پر شیادمیانے بجانے کی کوئی ضرورت نہیں،اقوامِ متحدہ برسوں سے اِس اجلاس کے انتظار میں تھی،اب یہ اجلاس بلالیا گیا ہے۔
یہ اجلاس ہر اُس موقع پر ضرور بلالیاجاتا ہے حالاتِ مجبوری میں،جب بھارت خطرے میں ہوتا ہے اور گرم معاملہ ٹھنڈا کرنایا لٹکانا ہوتوایسے اجلاس کا ہونا بہت ضروری،اِن اداروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ادارے ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کو بروقت انصاف فراہم کرنے سے بری طرح قاصر رہے ہیں،اِن کو مسلمانوں کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں،یہ سب ادارے یہودیوں اور اُن کے ہمدردوں ،خدمت گزاروں کے آلہ کار ،اُنہی کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں،دنیا میں قائم ساری انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اِن کے تحفظ کی بقاء کے لیے بنائی گئی ہیں،جو کافر کے مرنے پر کہرام مچادیتی اور مسلمان کی شہادت پر مجرمانہ خاموشی سے کام لیتی،یہودو نصاریٰ کا آپسی چولی دامن کا ساتھ،یہ آپس میں ایک دوسرے کے زبردست حامی،یہ مسلمان کے اچھے کے لیے سوچیں ،کبھی ہوہی نہیں سکتا،پاکستان سمجھتا ہے کہ اُس کے ساتھ دنیا چل رہی ،سچ یہ ہے کہ یہ سب دل کا وہم اور نظروں کا سراب ہے،کوئی بھی پاکستان کے ساتھ نہیں، پاکستان تنہاء ہے اورکشمیر میں اگرکچھ کرنا مطلوب ہے توپاکستان کے ساتھ کوئی بڑی طاقت کھڑی نہیں۔ ممتازصحافی ،معروف تجزیہ نگارایازمیر فرماتے ہیں کہ”اِس مسئلے میں چین کی حمایت بھی لفظی حد تک ہے۔
کشمیر میں چین اُس رول کے لیے تیار نہیں،جو اُس نے ویت نام کی جنگ میں اداکیاتھا،عرب دنیا ہمارے ساتھ تو بالکل نہیں،اُن دنوں میں ہی ہم نے دیکھ لیاتھاکہ وہ بیانات کی حد تک بھی ہمارے ساتھ نہیں، ترکی کے صدر نے کشمیریوں کے حق میں کچھ بات کی ہے،سعودی عرب چپ ہے،باقی گلف والے بالکل ہی چپ ہیں، متحدہ عرب امارات نے کوئی عندیہ دیاہے تو ہندوستان کی حمایت میں،ایراب بھی گومگو کی حالت میں ہے،ہمارے ساتھ اُن کے تعلقات کوئی اتنے اچھے نہیںہیں،سعودیہ سے قربت کے بارے میں بھی انہیں شکایات ہیں۔تو اور کون رہ گیا ہے ؟زبانی جمع خرچ کی بھی توقع ہم کہیں سے نہیں کرسکتے”۔
یہی وجہ ہے کہ تمام تر کامیابیوں کے دعوئوں کے باوجودہمارے وزیر اعظم عمران خان کو کہنا پڑا کہ ”کوئی کشمیر کی حمایت کرے یانہ کرے ،پاکستان آخری سانسوں تک کشمیر کی حمایت جاری رکھے گا”۔مگر مسئلہ پھر یہ ہے کہ کشمیری قوم اکیلے ہوکر بھی بھارت کے خلاف بغاوت کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ عملی طور پہ بغاوت کے لیے اُتری ہوئی ہے،لیکن کشمیری اکیلے ہیں اور پاکستان عجیب کیفیت میں گرفتار ہے۔بزرگ صحافی ایاز میرمزیدفرماتے ہیں کہ” پاکستان عوام کی اکثریت اِس رائے کی طرف مائل ہے کہ کشمیریوں کے لیے کچھ کرنا چاہیئے اور جنگ کی نوبت آئے اُس کا بھی خطرہ مول لینا چاہیئے،لیکن حکومت اوربالعموم حکمران طبقات(اِن کے ساتھ اشرافیہ کوبھی ملالیں اور ممی ڈیڈی کلاس کوبھی)یہ رائے نہیں رکھتے۔جنگ تو دور کی بات ہے وہ قربانی اور ایثار جیسی گفتگو کوبیکار کی باتیں سمجھتے ہیں،اُن سے کشمیر پر گفتگو چھڑے تو فورا ہی آئی ایم ایف کا ذکر آجاتااور ایف اے ٹی ایف کے تحت عالمی پابندیوں کابھرپور تذکرہ شروع ہوجاتا ہے۔
جدوجہد کا تھوڑاسابھی ذکر ہوتو آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں کہ لٹ جائیں گے،مرجائیں گے،پاکستان تباہ ہوجائے گا،اِن طبقات پہ کسی قسم کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا،ایثار کے راستے پہ چلنے کے لیے وہی طبقات تیار ہوں گے جن کا ریاست پاکستان کے معاملات میں حصہ صفر کے برابر ہے،جن کے پاس بہت کچھ ہو ،پراپرٹی کے کاروبار میںجن کے ہاتھ ہائوں دھنسے ہوں،وہ اور قسم کا جمع خرچ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔لڑائی اور جہاد وغیرہ کی چیزیںیہ لاچاروں کا کام ہی رہ جاتا ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے اگر یہ بھی کوئی فیصلہ کرتا ہے کہ لاچاروں پہ ہی تکیہ کیا جائے اور اِنہی سے کام چلانا ہے تو ایسی سوچ کا پاسدار کون ہوگا؟یعنی اِس کٹھن مرحلے میں بے یارومددگار قوم کی راہنمائی کون کرے گا؟ہماری موجودہ سیاسی پارٹیوں میں تو ایسا کام کوئی نہیں کرسکتا،پی ٹی آئی حکومت بھی اِس لحاظ سے باقی پارٹیوں کے برابر ہے،مطلب یہ کہ ایثار اور جدوجہد کی راہ اِن میںسے کسی نے نہیں چننی۔جہاں تک وزیراعظم عمران خان کا تعلق ہے تووہ واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ جنگ تباہ کُن ہوگی۔
طالبان کی سوچ تو یہ نہیں تھی جب اُنہوں نے امریکیوں کے خلاف ہتھیار اُٹھائے،ویت نام کے عظیم لیڈرہوچی من نے تو یہ نہیں سوچاتھاکہ امریکہ کے خلاف مزاحمت تباہ کن ہوگی،ویتنامی قوم تو لڑتی رہی۔۔۔۔۔جاپانیوں کے خلاف،پھر فرانسیسیوں کے خلاف اور پھر امریکہ کے مدمقابل۔۔۔۔۔یہ سوچے بغیر کہ مزاحمت کی راہ کتنی کٹھن ہوگی، ہم اگر پہلے سے ہی یہ سوچ لے کر بیٹھ جائیں کہ فلاں مشکل پیش آئے گی اور فلاں نتائج تباہ کن ہوں گے تو ہم نے کشمیر یا کشمیریوں کے لیے خاک کچھ کرنا ہے،حاصل یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم میں ہمت نہیں ہے،اِس قوم کے ایک حصے میں یہ خصوصیت دیکھی جاسکتی ہے، لیکن اِس محدود سی صلاحیت کو بھی کون بروئے کار لائے گا؟اس وقت کون میر کارواںہوسکتاہے؟باتوں میں ہم سے آگے کوئی نہیں،ہر لیڈر وزیراعظم سے لے کر دوسروں تک،بھارت کو للکار رہا ہے۔
ہم اِس بات پر اتنا زورنہیں دے رہے کہ کشمیریوں کے لیے کیا کریں گے بلکہ زور اِس بات پر ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا سوچا تو اُسے منہ توڑجواب دیا جائے گا،بھارت پاگل ہے ؟اُس نے مقبوضہ کشمیر میںجو کرنا تھا کر ڈالا،اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ پاکستان پہ چڑھ دوڑے،کس مقصد کے لیے؟مقصد تو اُس کا مقبوضہ کشمیر میں ہے اور اُس مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر حربے کا استعمال کررہا ہے۔ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا کرسکتے ہیں،اِس کے لیے کسی شورشرابے یا اونچی آواز میں بڑھکوں کی ضرورت نہیں،عام پاکستانی کشمیر کی جنگ کے لیے تیار ہے،پرابلم یہاں حکمران اورمراعات یافتہ طبقات کا ہے،جنہیں آئی ایم ایف تو دور کی بات ،اندھیروں سے بھی ڈر لگتا ہے،فیصلے عام آدمی کے ہاتھ میں نہیں،وہ اُنہی اوپر والے طبقات نے کرنے ہیں،اِن طبقات کو کشمیریوں کی اتنی کیا پڑی ہے؟اِن کی سوچ اور ہے،ترجیحات اور ہیں،اِن کی بنیادی دلچسپیاں اِن چیزوں میں ہے کہ بچے باہر پڑھ جائیں اور وہیںاُن کے ٹھکانے بنیں،لڑنے مرنے کے لیے اور لوگ ہی ہوتے ہیں،ایسے لوگوں کو راہ کون دکھائے گا؟اِن کا راہنماء کہاں سے آئے گا”۔ ممتاز صحافی ،معروف کالم نویس رشید احمد نعیم کا کہنا ہے کہ ”مقبوضہ کشمیر کی موجودہ بدترین صورتحال ہمارے لیے ایک سبق اورسوچنے کا مقام ہے ۔۔۔۔۔آخر ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں؟