بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ ایک دہائی میں بھارت میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد میں سے ایک فیصد سے بھی کم ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ کئی معصوم افراد اب بھی ان اسمگلروں کی مجرمانہ کارروائیوں کا شکار بن رہے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ بھارت کو انسانی اسمگلرز کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا ہوں گی تاکہ معصوم لوگوں کو اس کا نشانہ بنانے سے روکا جا سکے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست مغربی بنگال اور آندھرا پردیش میں 2008ء سے 2018ء تک 429 افراد کو انسانی اسمگلنگ کے 198 کیسز میں ملوث پایا گیا تھا۔ لیکن صرف تین ملزمان کو سزا سنائی گئی تھی۔
بھارت میں قانون کے کمزور نفاذ، وسائل کی کمی کا شکار پولیس اور عدالتی نظام کی سست روی کے باعث انسانی اسمگلر آزاد ہیں اور مسلسل مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم تفتیش کی ریسرچر سنگدھا سین کا کہنا ہے، ” اسمگلرز جیل سے باہر ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ گواہاں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے جرم کا شکار بننے والے متاثرہ افراد کو دھمکیاں دے کر چپ رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس طرح گرفتار ہونے والے مجرم بھی جیل سے باہر آجاتے ہیں۔‘‘
بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں گزشتہ کچھ سالوں سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں قریب تئیس ہزار افراد کو بچایا گیا تھا۔ یہ تعداد 2015ء میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بچائے جانے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کئی غیر سرکاری تنظیموں کی رائے میں درحقیقت انسانوں کی غیر قانونی تجارت کا حصہ بننے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے متاثرہ افراد خوف اور بدنامی کے باعث عدالتوں کا رخ نہیں کرتے۔
2016ء میں عدالتوں میں انسانی اسمگلنگ کے 95 فیصد کیسز تاخیر کا شکار تھے اور صرف 54 فیصد کیسز کی باقاعدہ سماعتیں ہوئیں۔ تفتیش نامی ادارے کے محققین نے مغربی بنگال اور آندھرا پردیش میں جب پولیس کے دستاویزات اور متاثرہ افراد کی شکایات کا تجزیہ کیا، تو ثابت ہوا کہ انسانی اسمگلنگ کے 429 مجرموں میں سے31 افراد کو ماضی میں بھی اسی جرم میں ملوث ہونے کی وجہ سے سزا سنائی گئی تھی۔ یہ بچوں اور نوجوانوں کو اسمگل کرنے کے جرم میں ملوث تھے۔ 429 میں سے 64 افراد ضمانت پر رہا ہیں اور انہوں نے ان علاقوں میں رہائش اختیار کی جہاں ان کی مجرمانہ کارروائیوں سے متاثرہ افراد رہائش پذیر تھے اور کام کرتے تھے۔
‘ہیلپ‘ نامی ایک اور غیر سرکاری تنظیم کے آندھرا پردیش میں قائم شاخ کے سکریٹری رام موہن کا کہنا ہے،” یہ ایک منظم جرم ہے لیکن پولیس کی تحقیقات ناکافی ہیں۔ مجرمان آزاد ہیں اور مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ ہمیں بہتر تحقیقات اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔”