مقبوضہ کشمیر میں سیاست اور وہاں آرایس ایس کے ممکنہ کردار کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اس پورے خطے کے امن کے لیے کشمیرمیں امن بہت ضروری ہے۔ آرایس ایس کے دہشت گرد بھارت میں سب مذہب کے نام پر وار لارڈ کی طرح کام کرتے ہیں۔ اور یہ خطے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اگر مودی سرکار آرایس ایس کے دہشت گردوں کی سرپرستی اور مسلمانوں کے قتل عام سے بازنہ آئی تو اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے لیے بہت بڑی مشکل پیدا ہو جائے گی۔ خطے میں قیام امن کے لیے تمام ترکوشش ناکام ہوجائیں گی۔
بھارت کی مقبوضہ کشمیر پر سیاست پر عالمی طاقتوں کی خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور دوسری جانب بھارت کا سرمایہ کاری کے نام پر دنیا کو دھوکہ دینے کا ڈرامہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔کیونکہ بھارتی وزیر اعظم مودی کا پوری دنیا پر قبضہ اور مسلمانوں کی نسل کشی کی خواہش دم توڑ چکی ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی امریکہ، روس،فرانس اور اسرائیل سمیت کئی ممالک سے اسلحے کی تجارت کے لئے زبانی ہزاروں معاہدے کرچکا ہے۔تجارتی معاہدوں کی مد میں ان ممالک کے سربراہان سے اعزازت، انعامات بھی وصول کرچکا ہے۔اس ڈرامے بازی سے بھارت کے عوام سمیت دنیا بھر میں کئی افواہوں نے جنم لیا۔اب ان معاہدوں پر عملدآمد کا وقت آیا تو اس نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کردی ہے۔
دہشت گردہندوتنظیم آرایس ایس کی جانب سے مودی سرکارکی سرپرستی میں وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سمیت دیگر مذہب کے لوگوں کے قتل عام سے امریکی کمپنیوں سمیت وہاں پر موجود غیرملکی لاکھوں کمپنیوں کے سربراہان کیلئے بھارت کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور پائیدار ارتقائی منصوبوں میں شرکت کرنا خوف کی علامت بن چکاہے۔مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بارے میڈیااور اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات پر پابندیاں، عالمی میڈیا کی رپورٹس نے مودی سرکار کے تمام ناپاک عزم کوخاک میں ملادیا ہے۔
بتایا جاتاہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کے باوجود مودی کی سازش بے نقاب ہونے پر بھارت کو افغان امن مذاکرات کے عمل سے بے دخل کردیا گیا۔ حالانکہ سنہ 2001میں افغانستان میں طالبان حکومت کے زوال کے ساتھ بھارت نے افغانستان کے تعمیر نو کے لیے امداد کی نئی سرے سے شروعات کی۔ سنہ 2002 میں بھارت نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بڑھایا۔ اس کے بعد مزار شریف، ہیرات، قندھار اور جلال آباد میں بھی اقتصادی سفارت خانے کھولے۔ سنہ 2006 تک صدر حامد کرزئی چار بار سرکاری دورے پر بھارت جا چکے تھے۔رواں سال تک بھارت افغانستان میں دو بلین امریکی ڈالر یعنی 139 ارب بھارتی روپے خرچ کر چکا ہے۔ دسمبر 2015 میں افغانستان کی پارلیمان کے افتتاح کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ آپ کا دکھ ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہے، آپ کے خواب پورے کرنا ہماری ذمہ داری ہیں، آپ کی مضبوطی ہی ہمارے لیے بھروسہ ہے۔ آپ کی ہمت سے ہمیں تحریک ملتی ہے اور آپ کی دوستی ہمارے لیے عزت کی بات ہے۔اس عمارت کے ایک بلاک کا نام بھی بھارتی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے نام پر رکھا گیا۔
دوسری جانب بھارت اور افغانستان دونوں ہی اب تک چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ چین نے افغانستان میں تامبے کی کان کنی میں سرمایہ لگانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے، لیکن اب تک کوئی کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ سنہ 2016 میں نریندرا مودی کے ریاض کے دورے پر ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا تھا۔ بھارت کی خام تیل کی درآمدات کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب سے آتا ہے اور سنہ 2018-2019 میں بھارت نے اس پر 87 ارب ڈالر خرچ کیے۔امریکہ، چین اور متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب بھارت کا چوتھا بڑا تجارتی حلیف ہے۔
اگر سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعاون کم ہو جاتا ہے تو کوئی بھی ملک اس کے دفاع کے لیے سامنے نہیں آئے گا سوائے پاکستان کے، جو اس کا طویل عرصے سے اتحادی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو گنوانا نہیں چاہتا اور اس نے مشکل وقت میں پاکستان کی عسکری امداد میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ دوسری جانب ریاض کو یہ معلوم نہیں کہ آیا بھارت اسے سکیورٹی اور عسکری تعاون دے گا بھی یا نہیں۔روایتی طور پر سعوی عرب اور پاکستان کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط ہیں اور ایسا تعلق باہمی اعتماد کی وجہ سے ہے۔ مسئلہ کشمیرمیں سعودی کا عرب کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہے۔
بات کی جائے روس،فرانس، امریکہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ بھارت ان سے اسلحے کی تجارت کے حوالے کئی معاہدوں کرچکے ہے۔لیکن اب تک ایک بھی معاہدے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ جس سے بھارت کے وزیراعظم مودی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ خطے کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ حالانکہ کہ روس سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن ہے اور ایسے ویٹو پاوربھی حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نتائج بہترآنے کی امید ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہمقبوضہ کشمیر پر بھارت کا سرمایہ کاری،میڈیا واربے نقاب ہوچکا ہے۔ پاکستانی قوم کو سوشل میڈیا پر غیر مصدق اطلاعات، تجریے، بھارتی میڈیارپورٹس پرتوجہ نہیں دینا چاہئے۔کیونکہ مقبوضہ کشمیر آزادی کی پالیسی بارے پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن متحدہیں۔ دنیا کی بہترین پاک افواج ہمارے وطن عزیز کی حفاظت کی ضمن ہے۔