پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ دو قومی نظریئے کے تحت ہم نوجوان نسل کو مملکت بنانے کی وجوہ سے آگاہ کرتے ہیں۔ مدینہ کے بعد ‘ پاکستان ‘ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی۔پاکستان بننے کے بعد بھارت نے ‘ اکھنڈ بھارت ‘ کا خواب دیکھنا شروع کردیا ۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے بعداس نے فخر سے کہا کہ ‘ دو قومی نظریہ ‘ کو دریا برد کردیا ‘ ۔ جناح کو پہلے ہی کرم خوردہ پاکستان ملا تھا ، مشرقی پاکستان کی نسل پرستی کی بنا پر علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں شروع ہوئیں۔ اس دوران اسرائیل بھی عربوں کو شکست دے چکا تھا۔اب بھارت و اسرائیل مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کو آگے بڑھانے لگے ، مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان کے ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ بھی ملک دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہونے لگا۔سوویت یونین پاکستان کی سرحدوں تک پہنچ گیا ۔حالاں کہ وہ خود نہیں آیا تھا بلکہ اُسے افغانستان کی سیاسی جماعتوں نے بلایا تھا ۔ لیکن بیشتر افغانیوں کو سرخ ریچھ کی آمد اچھی نہیں لگی ، کیمونزم کا خوف دنیا پر طاری تھا ، امریکا نے جہاد کو پرموٹ کیا اور پھر دس بعد سوویت یونین شکست خوردہ ہو کر افغانستان سے نکل گیا۔
آج دنیا دیکھ رہی ہے جن طالبانوں نے سرخ ریچھ کے خلاف جہاد کرکے اپنے وطن سے نکالا تھا ، آج وہی سرخ ریچھ ، امریکا کو ضمانت دے رہا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کی سرزمین ، ”دہشت گردی ”کے لئے استعمال نہیں ہوگی۔ ایران جن سے افغان طالبان کے تعلقات بدترین تھے ۔ خمینی انقلاب کے بعد افغانستان میں ایران اور امارات اسلامیہ افغانستان کے درمیان شدید تلخی ، تنائو اور جنگ رہتی تھی ۔ دنیا نے دیکھا کہ اب ایران ، افغان طالبان کا سب سے بڑا اتحادی ہے اورافغان طالبان کی حمایت کرتا ہے ، کیونکہ افغان طالبان ، امریکا کے مخالف تھے ، اور ایران ، امریکا کا خمینی انقلاب کے بعد ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تھے اس لئے تمام ترجیحات تبدیل ہوگئیں۔
عرب ممالک اسرائیل کے خلاف تھے ، لیکن ایران کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے اسرائیل کو قریب کرلیا ۔ ترکی اپنی اسپشل فورس کمانڈوز کے لئے( 9×19mm Parabellum)Uzi سب مشین گن سن 1954سے ، (5.56×45mm NATO) Tavor TAR-21 سن 2001 سے آج بھی سرائیلی مشین گن اپنی فورسز کے لئے خریدتا ہے۔
اگر مسلم اکثریتی ممالک کا جائزہ لینا شروع کریں تو بات دور تلک چلی جائے گی ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل40برس سے زائد عرصے سے پاکستان سے قریبی و سفارتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ اس پر بھی اگر بات کی جائے کہ پاکستان و اسرائیل کہاں کہاں اور کب کب قریب ہوئے تو شاید کچھ احباب کو بات ناگوار گزرے۔اظہاریئے کا مقصد کسی فرد یا ادارے پر تنقید بھی نہیں ہے ۔ عیاں ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کے علاوہ ایٹمی طاقت بھی رکھتا ہے ۔ اور پاکستانی عوام میں مذہبی رجحان و جذبانیت دوسرے ممالک سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے ۔ پاکستان میں شدت پسندی و انتہا پسندوں نے اپنا گھر بھی بنایا تھا ۔ خاص طور پر افغانستان کی جنگ میں سوویت یونین کو جس طرح پاکستان کی مدد سے رسوا کیا گیا و شکست سے دوچار کیا ، اسرائیل ہی کیا ، دنیا کے کسی بھی ملک کو تحفظات ہوسکتے ہیں۔ اب اس کا ذمے دار کون تھا ، یہ کہنے سے یقیناََ ہمارے پَر جلتے ہیں اس لئے اس موضوع کو فی الوقت یہیں رہنے دیتے ہیں۔
اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ و سلامتی کونسل میں دنیا کے تقریباََ تمام ممالک نے امریکا کے سفارت خانے یروشلم منتقل کئے جانے پر ووٹ دیا ۔ لیکن اس سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی پرواہ نہیں کی ۔جون2018کی ہی تو بات ہے کہ جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو تحفظ دینے سے متعلق قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی تھی جسے سلامتی کونسل میں امریکہ نے ویٹو کردیا تھا۔مذکورہ قرارداد فلسطین، عرب لیگ کے موجودہ سربراہ الجزائر اور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ‘او آئی سی’ کے موجودہ صدر ملک ترکی کی جانب سے پیش کی گئی تھی جسے دیگر کئی مسلم ممالک کی حمایت بھی حاصل تھی۔ رائے شماری میں قرارداد کے حق میں 120 اور مخالفت میں صرف آٹھ ووٹ پڑے جب کہ 45 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔قرارداد کی مخالفت کرنے والوں میں امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ آسٹریلیا، مارشل آئی لینڈ، میکرونیشیا، ناورو، ٹوگو اور سولومن آئی لینڈ شامل تھے۔ بیشتر یورپی ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کیں ہیں ۔ بھارت جیسے ازلی دشمن سے مذاکرات و دوستی کی مخدوش راہ کو ہموار کرنا چاہتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر دونوںممالک کے درمیان تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے ۔ اسی طرح فلسطین بھی تنازعے کا سبب ہے۔
دونوں مقبوضہ علاقوں میں کئی معاملات میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے ۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں تمام تر زیادتی ،ظلم و جبر کے باوجود خطے میں جنگ نہیں چاہتا۔ وزیر اعظم پاکستان بار ہا کہہ چکے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے کیونکہ جنگ شروع تو کی جاسکتی ہے لیکن ختم کب ہوگی کسی کو نہیں علم ۔ وزیر اعظم نے جنگ سے فرار نہیں بلکہ امن کی بات کی ۔ یہ ایک اچھا امر ہے ۔ پاکستانی فوج کسی سے بھی کسی بھی مرحلے پر روایتی و غیر روایتی جنگ لڑ سکتی ہے ۔ اس میں بھی کسی قسم کی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے ۔لیکن موجودہ حکومت آنے کے بعد کچھ ایسے الزامات تواتر سے لگ رہے ہیں جن کی بازگشت اب عالمی سطح پر بھی سنی جارہی ہے۔ضروری ہے کہ پاکستان کی وزرات خارجہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو واضح کرے ۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے پہلے عرب ممالک سے قریبی تعلقات کی وجہ سے اپنے پڑوسی ملک ایران کو ناراض کیا ، اور اب یہ افواہیں بھی آرہی ہیں کہ ایران کے لئے اب عرب ممالک کو ناراض کیا جارہا ہے۔ اسرائیل یہودی ریاست ہے۔
قرآن کریم میں یہود و نصاریٰ کو مسلم امہ کا دوست قرار نہیں دیا گیا۔ پھر سمجھنے کی بات اس میں یہ ہے کہ نصاریٰ کو تو ہم نے دوست بنایا ہوا ہے یہود سے دوری کیوں ؟۔ کیا پاکستان تمام اسلامی ممالک کا غیر اعلانیہ ٹھیکدار ہے جس نے مخالفین کو اپنا دشمن بنانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ پھر یہود و نصاری کو ایک پلڑے میں کیوں تولا نہیں جاتا ۔ جب یہود ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں تو نصاریٰ ہمیں کہاں سے فائدہ دیں گے ۔ وہ بھی تو اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔ پاکستان داخلی مسائل میں الجھا ہوا بھی اسی وجہ سے ہے۔یہود ، نصاریٰ اور ہنود کی سازشیں اور پراکسی وار پاکستان کو سر اٹھانے کے قابل نہیں رکھنا چاہتے ۔ پاکستان کو دو لخت کرنے میں ہنود ہی نہیں ، یہود و نصاریٰ نے بھی مکمل حصہ ڈالا تھا ۔ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کو عالمی برداری کے علاوہ عرب اسلامی ممالک کی طرز پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم بھی وہی کچھ کررہے ہیں جو عرب و دیگر مسلم اکثریتی ممالک کررہے ہیں ۔ ہمیں اس حوالے سے کھل کر بات کرنی ہوگی ۔ کسی مسئلے کو دبانے سے وہ دبتا نہیں بلکہ شدت سے سر اٹھاتا ہے ۔ عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کے سفارتی تعلقات کی طرح ہمارا چلنا ضروری ہے یا نہیں ؟۔