برلن (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی سے بحیرہ ایجیئن میں واقع یونان کے مختلف جزائر تک پہنچنے والے تارکین وطن کی ماہانہ تعداد پھر بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ جرمنی نے اس بارے میں تشویش ظاہر کی ہے کہ اگست میں آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن ترکی سے یونان پہنچے۔
جرمن دارالحکومت برلن، یونانی دارالحکومت ایتھنز اور ترک دارالحکومت انقرہ سے ہفتہ سات ستمبر کو ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ترکی سے سمندری راستے سے یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے مختلف جزائر تک پہنچنے والے تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کی ماہانہ تعداد ایک بار پھر نہ صرف بہت زیادہ ہو گئی ہے بلکہ یہ رجحان اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ ترکی نے حال ہی میں دوبارہ یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ بحیرہ ایجیئن میں ایسے تارکین وطن کو روکنے کے بدلے اسے اور زیادہ بین الاقوامی امداد دے جائے۔
برلن میں جرمن حکومت کی نائب ترجمان مارٹینا فِیٹس نے صحافیوں کو بتایا، ”ہم اس پیش رفت پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور یہ تشویش کا باعث ہے۔‘‘ دوسری طرف اسی بارے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے جاری کردہ اعداد و شمار بھی یورپی حکومتوں کے لیے کافی تشویش کا سبب بنے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اس سال اگست میں ترکی سے مجموعی طور پر 8,103 تارکین وطن پناہ کی تلاش میں بحیرہ ایجیئن میں واقع یونان کے مختلف جزائر پر پہنچے۔
یہ تعداد گزشتہ برس اگست کے مہینے میں ریکارڈ کی گئی ایسے تارکین وطن کی تعداد کا تقریباﹰ ڈھائی گنا بنتی ہے۔ اگست 2018ء میں ایسے 3,200 مہاجرین اور تارکین وطن ترکی سے یونانی جزائر پر پہنچے تھے۔
اسی دوران یو این ایچ سی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ اب ایسے تارکین وطن کی یونانی جزائر پر آمد ایک بار پھر اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ بحیرہ ایجیئن میں لیسبوس، خیوس، ساموس، لیروس اور کوس کے یونانی جزائر پر ان تارکین وطن کی رجسٹریشن کے لیے قائم کردہ تمام کیمپ گنجائش سے کہیں زیادہ بھر چکے ہیں۔
سن 2016 میں ترکی نے یورپی یونین کے ساتھ ایک ایسی ڈیل طے کر لی تھی، جس کے تحت انقرہ کو بحیرہ ایجیئن کے راستے تارکین وطن کو یونانی جزائر تک پہنچنے سے روکنا تھا اور اس کے بدلے میں یونین کو ترکی کو تین بلین یورو (3.3 بلین ڈالر) بین الاقوامی امداد کے طور پر ادا کرنا تھے۔
اس کے علاوہ اسی ڈیل کے تحت یورپی یونین کو ترکی میں مقیم شامی مہاجرین میں سے ہر اس تارک وطن کے بدلے ایک مہاجر کو اپنے ہاں قبول کرنا تھا، جس کی یونان میں پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی ہو اور جسے وہاں سے ملک بدر کر کے واپس ترکی بھجوا دیا گیا ہو۔
یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ تین سال پہلے طے پانے والے اس معاہدے کا ایک پس منظر یہ بھی تھا کہ 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اب تک ترکی میں مقیم شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو 3.6 ملین بنتی ہے۔ اب تک کوئی بھی دوسرا ملک ایسا نہیں، جس نے اپنے ہاں شامی مہاجرین کو ترکی سے زیادہ تعداد میں پناہ دی ہو۔