غنڈا گردی، بدمعاشی، بدسلوکی، بدتمیزی کیا ہے؟۔ وکلاء اور پولیس حکام سے بہتر معاشرہ کا کوئی فرد قانون نہیں جانتا۔ قانون کی بالادستی کے لئے وکلاء اور پولیس حکام کاکردار بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں وکلاء اور پولیس کی خدمات بے مثال ہیں۔قانون کی بالادستی کیلئے وکلاء اور پولیس سمیت سکیورٹی فورسزکے شہداء زندہ مثالیں ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہاں امورِ زندگی کو چلانے کیلئے ضروری قوانین نہ بنائے جائیں جبکہ معاشرے کی ترقی کا انحصار ان قوانین پر عمل کرنے میں ہی ہوتا ہے۔
آج دُنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں خوشحالی کی ایک بڑی وجہ قانون کا احترام ہے۔ ہمارے ہاں یہ چیز ناپید نظر آتی ہے جو کہ ایک ذہنی کیفیت اور معاشرے کی اجتماعی سوچ کی بھی عکاس ہے۔ قوانین تو نہ صرف موجود ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں تا کہ اُنہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے مگر ان قوانین پر عمل درآمد ہوتا بہت کم نظر آتا ہے۔ قانون طاقتور کیلئے اور جبکہ غریب کیلئے اور بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے طبقاتی تقسیم بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قانون کی حکمرانی صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ اس میں معاشرے کے ہر فرد کا کردار انتہائی اہم ہے۔
ہم دوسروں کو باتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر اپنی ذات پر اُسے لاگو نہیں کرتے۔ تنقید کرنا اور مخالفت برائے مخالفت کا رجحان ہمارا شیوہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ ہر بُری چیز کا الزام تو حکومت پر ڈال دیا جاتا ہے مگر اگر حکومت کوئی اچھا قدم اُٹھائے تو اُس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے یا پھر اُس میں بھی کیڑے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس کی بڑی مثال صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا کچہری میں خاتون پولیس اہلکار نے احمد مختار نامی وکیل کو لیڈیز چیکنگ پوائنٹ پر گاڑی پارک کرنے سے منع کیا تھا جس پر وکیل احمد مختار نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیڈی کانسٹیبل سے بدتمیزی کی اور تھپڑ مارا دیا۔خاتون سے بدتمیزی کرنے پر صدر شیخوپورہ ڈسٹرکٹ بار رانا زاہد نے فیروز والا کچہری میں خاتون اہلکار کو تھپڑ مارنے والے وکیل کی حمایت میں ریلی نکالی گئی۔فیروز والا کچہری میں ہڑتال کی گئی اور عدالت میں پولیس کا داخلہ ممنوع ہونے کے بینر بھی لگا دیے گئے۔
خاتون پولیس اہلکار کی توہین اور تھپڑمارنے کی گونج دنیا بھر میں ”وکلاء گردی“ کے نام سے پہنچان بن چکی ہے۔جس سے وکلاء اور پولیس حکام کی قانون کی بالادستی کیلئے بے مثال خدمات۔؟؟ اس معاملے پر کیافیصلہ ہوگا۔ پاکستان بار کونسل، پنجاب بارکونسل،سپریم کورٹ بارکونسل کے معززوکلاء کو ہی کرنا ہے۔فیروز والا کچہری میں خاتون پولیس اہلکارکو وکیل کا تھپڑ مارنا تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا جارہاہ ہے۔خواتین کی عزت کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، عورت ماں، بیٹی، بہن،بیوی اور بہو کی صورت میں ہرگھرمیں موجودہے۔وطن اور گھرکی حفاظت ہرشہری کی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹرز، صحافی،وکلاء، اساتذہ،سیاست دان اورسکیورٹی اداروں سمیت ملکی خدمات میں پیش پیش خواتین ہم سب کیلئے قابل عزت،قابل احترام ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی بھی شک نہیں کہ سیاسی حکومتوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی مخالفت مول نہیں لے سکتیں لیکن اگر معاشرہ اور بالخصوص میڈیا ساتھ دے تو نہ صرف حکومتوں کو اچھے اور سخت فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے بلکہ اُن پر عمل درآمد کیلئے مطلوبہ عزم اور حوصلہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ صرف مخالفت برائے مخالفت اور سیاسی فوائد حاصل کرنے سے روکنے کیلئے اچھے اقدامات کی بھی مخالفت کرنا یا معنی خیز خاموشی بھی دراصل قانون کی حکمرانی کے تصور کو ناکام بنانے کے مترادف ہے۔
یہ معاشرے کی مجموعی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر اور پریشر گروپس کو کامیاب نہ ہونے دیں اور حکومت وقت کو یہ تاثر دیں کہ اُسکے ہر اچھے کام کی بھرپور حمایت اور غلط اقدام کی مخالفت کی جائیگی۔ اگر معاشرہ یکجا ہو تو تمام مفاد پرست عناصر کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ حکومتوں کو بھی حوصلہ ملے گا کہ وہ عوام کی بہبود کیلئے مشکل اور سخت فیصلے کر سکیں نہ کہ سیاسی مفادات کے چکر میں پڑی رہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور وکلاء کو ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کرنا چاہئے۔تاکہ آئند خواتین سے بدتمیزی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو قانون کے تحت بروقت سزا مل سکے۔