100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کو چھوڑیں کہ غالباََ 35 پنکچروں کی طرح یہ بھی ایک سیاسی بیان تھا۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 5oلاکھ گھروں کی نویدبھی بھٹو مرحوم کے ”روٹی، کپڑا اور مکان” کا چربہ کہ 400 دن گزرنے کے باوجود اِس دعوے کا کوئی نام نہ نشان۔ مہنگائی کے عفریت پر ”مٹی پاؤ” کہ حکمران قوم سے تاریخ پہ تاریخ دیتے ہوئے۔ آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے ڈالر کا کیا رونا جب خود وزیرِاعظم کہتے ہیںکہ اُنہیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے۔ ہمیں یقین کہ اُنہیں پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی ساری حدیں توڑتی قیمتوں کا بھی پتہ نہیں ہوگا۔ یوٹرن لیتے ہوئے ہمیں ہر گز شرم محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اِسے قانونی حیثیت حاصل ہو چکی۔ وزیرِاعظم نے ببانگِ دہل کہا ”میں یوٹرن لیتے لیتے وزیرِاعظم بن گیا اور مخالفین جیلوں میں”۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لیے یہی یوٹرن کام آیا، اگر یہ نہ ہوتا تو وزیرِاعظم خودکشی ہی کر لیتے۔ اب ہماری معیشت آئی ایم ایف کے ”محفوظ ہاتھوں” میں ہے اور حکمرانوں کو یقیں کہ معاشی بیڑا پار ہو جائے گا۔ یہ الگ بات کہ آئی ایم ایف کے چنگل میں آئے ہوئے بیشتر ممالک سسک رہے ہیں۔ بقول شاعر ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید جو نہیں جانتے ، وفا کیا ہے
بتانے کو تو حکومتی ایک سالہ کارکردگی پر بہت کچھ، اتنا کچھ کہ پوری کتاب لکھ دی جائے لیکن پچھلے دنوں جو کارنامہ حکومتی ٹیم نے سرانجام دیا، وہ منفرداور بے مثل کہ اُس کی نظیر پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہوا یوں کہ ”اندرکھاتے” ٹیکس خوروں کو 300 ارب (پچاس فیصد) ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معاف کر دیا گیا۔ جب گلی گلی میں اپوزیشن نے شور مچایاکہ یہ ٹیکس معافی اپنوں کو نوازنے کے لیے دی گئی تو عمران خاں نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اُن کا یہ اقدام مستحسن لیکن اِس واپسی نے کئی سوالات اُٹھا دیئے۔ وزیرِاعظم بننے سے پہلے ایسے ہی فیصلوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے عمران خاں نے نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے متعدد بارکہا ”کوئی شرم کرو۔ کیا یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے”۔ کیا اب اُنہوں نے یہی سوال اپنے اُن فیصلہ سازوں سے کیاجنہوں نے ٹیکس چوروں کے 300 ارب معاف کروانے کا صدارتی آرڈیننس جاری کروایا؟۔ صدر تو آئین کی رو سے وزیرِاعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے، کیا وزیرِاعظم نے ایسی کوئی ایڈوائس جاری کی؟۔ کیا 50 فیصد ٹیکس معافی کی منظوری وفاقی کابینہ نے دی؟۔ اگر وفاقی کابینہ سے منظوری لی گئی تو کیا اُس کی سربراہی وزیرِاعظم نہیں کرتے؟۔ صاف ظاہر ہے کہ ٹیکس معافی کا معاملہ بھی iیقیناََ زیرِبحث آیا ہو گاجس کی منظوری وزیرِاعظم کی ایماء پر دی گئی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آرڈیننس واپس لینے سے ایک دن پہلے وفاقی وزراء صدارتی آرڈیننس کے فوائد بیان کرتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ آرڈیننس کی واپسی کے بعد اگلے ہی دن وزیرِخزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میںمنعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں اِس آرڈیننس کی واپسی کے فیوض وبرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے اِنہی بزرجمہروں کی زبانیں نہیں تھکتی تھیں۔ اِس قسم کے یوٹرنوں پر قوم کب تک صبر کرے ۔۔۔۔۔۔ آخر کب تک۔
منگل 10 ستمبر کو پوری قوم انتہائی عقیدت واحترام سے یومِ عاشور منا رہی ہوگی۔ حسین ابنِ علی ہم سب کے ہیں اور اُن کی قربانی ہمارے لیے مشعلِ راہ۔ ہماری عقیدتیں بجا لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ درسِ حسین کیا ہے اور ہم اُس پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں۔ درسِ حسین تو یہ کہ
سَر داد، نہ داددست دَردستِ یزید حقا کہ بنائے لاالہ ہست حسین
اپنی جان و مال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق پر ڈٹ جانا ہی عین اسلام ہے جس کی درخشندہ ترین گواہی خانوادۂ رسولۖ کے خون سے رنگین ہوتی کربلا کی مٹی آج بھی دے رہی ہے اور قیامت تک دیتی رہے گی لیکن ہم مصلحتوں کے اسیر۔ کشمیر کی بیٹی کے سَر سے ردا چھن گئی لیکن ہمارے حکمرانوں کی طرف سے محض ”پھوکے فائر”۔ کشمیر کی بیٹی سوال کرتی ہے کہ کیا جلسے، جلوسوں اور ریلیوں سے اُس کی عصمت محفوظ ہو جائے گی؟۔ کیا کشمیر کا جھنڈا لہرانے اور ترانہ پڑھنے سے ”موذی” آرٹیکل 370 اور 35-A واپس لے لے گا؟۔ کیا ”موذی” کو ہٹلر اور فاشسٹ قرار دینے سے جنت نظیر وادی کی بہاریں لوٹ آئیں گی ؟۔ صاحب! سچ یہی کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
ہمیں دلی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا کوئی شوق نہیں۔ ہم جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی واقف لیکن جب کوئی آپشن باقی نہ بچے تو پھر جنگ ناگزیر۔ حکومتی جاری بڑھکوں میں ایک دبنگ آواز نے قوم کے حوصلوں کو مہمیز دی۔ وہ آواز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی تھی۔ اُنہوں نے کہا ” ایٹمی پہل نہ کرنا ہماری پالیسی نہیں۔ ہماری پالیسی دفاع کی ہے۔ ساری کوششیں ناکام ہو جائیں تو جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ جس زبان اور جس ہتھیار سے بھارت بات کرے گا، اُس ہتھیار سے جواب دیں گے۔ قوم کو افواجِ پاکستان پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے”۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا”کشمیر ہماری شہ رَگ اور ہمیں جان سے عزیز ہے۔
کشمیر کے لیے آخری گولی، آخری سپاہی اور آخری سانس تک لڑیں گے۔ اِس کے لیے کوئی بھی قدم اور کسی بھی انتہا تک جائیں گے خواہ ہمیں کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اُنہوں نے کشمیریوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ”پاک فوج جدوجہدِ آزادی میں آپ کے ساتھ ہے۔ ہماری سانسیں آپ کے ساتھ چلتی ہیں۔ آپ کی ثابت قدمی کو سلام ہے۔ہمیں آپ کی موجودہ مشکلات کا بھرپور احساس ہے۔ ہم آپ کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور انشاء اللہ کھڑے رہیں گے۔ ہمیں رَبّ سے اُمید ہے کہ آپ اپنا جائز حقِ خودارادیت حاصل کرکے رہیں گے”۔ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ کے اُس بیان کا مُنہ توڑ جواب دیا ہے جس میں اُس نے کہا تھا ”ایٹمی پہل نہ کرنا ہماری پالیسی ہے لیکن اب ہم اِس پر نظرِثانی کر رہے ہیں”۔ میجر جنرل صاحب نے بھارت کو صاف صاف بتا دیا کہ ایٹمی پہل نہ کرنا پاکستان کی پالیسی نہیں۔ ہم جب، جہاں اور جیسے چاہیں ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان کی یہ پریس کانفرنس قومی اُمنگوں کی ترجمان بھی تھی۔ چیف آف آرمی سٹاف نے بھی جی ایچ کیو راولپنڈی میں یومِ دفاع کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” کشمیر تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ پاکستان کبھی بھی کشمیریوں کو تنہا اور حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑے گا”۔ ہمیں چیف آف آرمی سٹاف اور پاک فوج کے ترجمان کی باتوں پر بھرپور اعتماد۔ ہمیں یہ بھی یقین کہ جذبۂ شوقِ شہادت میں گندھی پاک فوج کا ایک ایک جوان آخری گولی اور آخری سانس تک جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ سوال مگر یہ کہ بھارت تو آرٹیکل 370 اور 35-A کی صورت میں جارحیت کر چکا، مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بنا چکا، اب ہم کس انتظار میں ہیں؟۔ اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کا حشر سب کے سامنے۔ عالمی سطح پر سوائے چین اور ترکی کے کسی نے اِس بھارتی اقدام کی بھرپور مذمت نہیں کی۔ سبھی اِسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں۔
اُمتِ مسلمہ خاموش تماشائی۔ کئی مسلم ممالک کے مفادات بھارت سے وابستہ۔ اِن حالات میں پاکستان کے پاس سوائے جنگ کے کون سا آپشن باقی بچا ہے؟۔ ہمارے حکمران بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر بھارت نے جارحیت کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا لیکن بھارت تو جارحیت کر چکا (فی الحال) کشمیر کو ہڑپ کر چکا۔ اب بھارت کی طرف سے کس جارحیت کا انتظار ہے؟۔ کیا قوم یہ سمجھ لے کہ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ ختم اور بھارتی وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ کے مطابق اگر کبھی مذاکرات ہوئے تو آزاد کشمیر پر ہوں گے۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ بھارت تو اپنی خباثتوں میں کامیاب ہوچکا اور ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان کی طرح ایک اور سانحے کا دُکھ جھیلنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے لیکن پھر بھی ہمیں میجرجنرل آصف غفور کے اِس بیان پر اعتبار ”کشمیر پر سودے بازی ہوئی، نہ ہوگی۔ کشمیر پر ڈیل کے لیے ہماری لاشوں سے گذرنا ہوگا”۔ قوم انتظار میں ہے کہ ”موذی” کی خباثتوں کا کب جواب دیا جائے گا۔ یہ انتظار کب تک ۔۔۔۔۔ آخر کب؟۔