ہانگ کانگ (اصل میڈیا ڈیسک) طلبہ نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انسانی زنجیر بنائی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے کئی سو بچوں نے اسکول یونیفارم میں سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج درج کرایا۔ کئی نے چہروں پر ماسک بھی پہن رکھے تھے۔ اسکول اور یونیورسٹی کے طلبہ نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انسانی زنجیر بنائی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
ہانگ کانگ میں تین ماہ کے مظاہروں کے دوران لوگوں کے مطالبات بڑھتے گئے ہیں اور اب وہ چین کے زیر اثر انتظامیہ پر اپنے جمہوری حقوق کے لیے زور ڈال رہے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ کی انتظامیہ اپنے معاملات میں خودمختار ہے۔ تاہم چین کا واضع موقف ہے کہ ہانگ کانگ اس کا حصہ ہے اور خطے کو الگ کرنے کی ہر سازش کو کچل دیا جائے گا۔ چین کا الزام ہے کہ ہانگ کانگ میں مظاہروں کے پیچھے برطانیہ اور امریکا کا ہاتھ ہے۔
ہانگ کانگ بین الاقوامی سرمایہ کاری کا ایک اہم مرکز ہے۔ یہ علاقہ چین اور برطانیہ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت سن 1997 میں برطانیہ نے واپس چین کے حوالے کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت چین ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں کا احترام کرنے کا پابند ہے۔ ہانگ کانگ کی علاقائی انتظامیہ نیم خود مختار سمجھی جاتی ہے اور اسے چین کے زیر اثر خیال کیا جاتا ہے۔
ماہ جون میں شدت اختیار کر جانے والے ان مظاہروں کا اصل مقصد ایک متنازعہ قانون کی مخالفت تھا، جس کے تحت ہانگ کانگ کی انتظامیہ چین کو مطلوب ملزمان کو بیجنگ کے حوالے کرنے کی پابند ہو جاتی۔ اس مجوزہ قانون کے مخالفین کا کہنا تھا کہ اس قسم کا قانون چین پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔
اس متنازعہ قانون کے خلاف مسلسل احتجاج کے بعد جولائی میں ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے اس کی منظوری معطل کر دی تھی، لیکن مظاہرین کی تسلی پھر بھی نہیں ہوئی اور مظاہرے جاری رہے۔ آخر کار پچھلے ہفتے حکومت نے یہ قانون واپس لینے کا اعلان بھی کر دیا لیکن مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔