توقع یہی کی جا رہی تھی کہ صدر ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں آکر آخری وقت میں افغان مفاہمتی عمل کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ جب سے افغان مفاہمتی عمل شروع ہوا ہے اور امریکی صدر نے شام کے علاوہ افغانستان سے اپنے فوجی نکالنے کا اعلان کیا اُس وقت سے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے صدر ٹرمپ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور کئی اہم شخصیات اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے تھے۔ نیزکانگریس کے کئی اراکین نے امریکی صدر پر دبائو بڑھائے رکھا اور باقاعدہ لیٹر لکھا گیا کہ امریکی صدر ، افغانستان سے افواج کے انخلا اور افغان طالبان سے معاہدے پر نظر ثانی کریں۔ زلمے خلیل زاد کو دوحہ مذاکرات کے چھٹے مرحلے میں کانگریس کی خارجہ کمیٹی نے طلب کیا تھا لیکن زلمے خلیل زاد نے خطوط موصول ہونے کے باوجود کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر کمیٹی نے نویں دور کے افغان مفاہمتی عمل کے مکمل ہونے پر امریکی صدر کے خصوصی ایلچی کو طلب کیا لیکن زلمے خلیل زاد پیش نہیں ہوئے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد انہیں تمام معاملات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔وہ نہیں چاہتے کہ دوحہ مذاکرات کے معاملات میڈیا کے سامنے آئیں۔ اس امر پر کانگریس کے اراکین کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا کہ امریکی انتظامیہ کانگریس کو اعتماد میں نہیں لے رہی اور معاہدے کے مندرجات سے انہیں آگاہ نہیں کرنا چاہتی۔دوحہ میں اس وقت تک باقاعدہ مذاکرات کے نو دور ہوچکے ہیں ، جبکہ کابل انتظامیہ کے شدید ردعمل کے بعد 6ستمبر کو افغان طالبان سے قطر میں دوبارہ دو دن مذاکرات ہوئے اور مسودے پر اصولی بنیادوں پر اتفاق رائے کو مثبت قرار دیا ۔ جس کے بعد زلمے خلیل زاد نے امریکی روانگی کا اعلان کیا۔تاہم ان کے اعلان کے بعد8ستمبر کو امریکی صدر نے ٹویٹر کے ذریعے دوحہ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ جس کی وجوہات میں بتایا گیا کہ افغان طالبان مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں ، حالیہ حملوں میں ایک امریکی فوجی سمیت بارہ غیر ملکی ہلاک ہوئے تھے۔نیز اس کے علاوافغان طالبان نے مذاکراتی دور کے دوران بھی اپنے حملوں میں کمی کے بجائے سختی ہی رکھی اس کے وجہ یہی بیان کی گئی تھی کہ جب تک معاہدے پر دستخط نہیں ہوتے اور فریقین سے معاملات طے نہیں ہوجاتے ، افغان طالبان حملے جاری رکھیں گے ۔ افغان طالبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر امریکا کے ساتھ معاہدے کے بعد افغان سیکورٹی فورسز نے حملے جاری رکھے تو افغان طالبان افغان سیکورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے گی۔
اہم امر یہ ہے کہ امریکی صدر و اسٹیبلشمنٹ کیایہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے افغان طالبان کو زیر نہیں کیا بلکہ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کئے جارہے تھے۔ افغان طالبان مکمل افواج کا انخلا اور اقتدار کی واپسی چاہتے تھے ۔ جبکہ امریکا افواج میں کمی و کابل انتظامیہ کو شریک اقتدار کرانے کے علاوہ جنگ بندی چاہتے تھے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ یہ گمان کررہے ہیں کہ انہوں نے افغان طالبان کو شکست دے دی ہے اس لئے ان کی تمام شرائط کو افغان طالبان کو مان لینا چاہیے ۔ شاید ان کی خواہش تھی کہ نائن الیون والے دن افغان طالبان میڈیا کے سامنے ٹوئن ٹاور پر حملے کی معافی مانگیں اور ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول چڑھائیں۔ جب کہ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ امریکا 19برسوں میں سوائے شکست کے فتح کے قریب بھی نہیں آسکا اور اسے افغانستان سے بہرصورت جانا ہے اس لئے جنگ کا خاتمہ امریکی کی مجبوری ہے۔
دونون فریقین نے ایک برس سے جاری مذاکرات میںلچک کا مظاہرہ کیا ۔ افغان طالبان نے امریکی وفد کی تجاویز میں امریکی افواج کے فوری انخلا میںمہلت دینے میں آمادگی ظاہر کی ۔ دوئم اقتدار کی مکمل واپسی کے بجائے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ذریعے افغان گروپوں سے افغانستان کے نظام و انصرام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے امریکی انتظامیہ سے معاہدے کے بعد مذاکرات پر حامی بھری۔افغانستان کی سرزمین کو امریکا سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی۔ اپنے اسیر قیدیوں کی مکمل رہائی سے انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی تک پیچھے ہٹ گئے۔کابل انتظامیہ کو دیگر گروپوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کرنے کے لئے قطر کے علاوہ بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔لیکن اپنے اس دو موقف کو واضح رکھا کہ جب تک امریکی فوج کا انخلا اور نیا سیکورٹی معاہدہ نہیں ہوتا ، افغان طالبان جنگ بندی نہیں کریں گے ۔ دوئم کابل انتظامیہ کے ساتھ مسودے پر دستخط سے قبل کسی قسم کا معاہدہ نہیں کریں گے اور انہیں امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں فریق نہیں مانیں گے۔
یہ بڑے واضح نکات تھے اور جب کہ مذاکرات اختتام پا چکے تھے اور صدر ٹرمپ کو مسودے کی منطوری دینی تھی تو ان حالات میں مذاکرات کو منسوخ کئے جانا ، جاری جنگ کو مزید بڑھائے گا ۔کیونکہ مزاکرات آخری مرحلے میں داخل ہوچکے تھے اور تمام چیدہ چیدہ نکات پر اتفاق رائے پیدا ہوچکا تھا اس لئے ان حالات میں امریکا کا مذاکرات سے پیچھے ہٹ جانا ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کا دبائو لگتا ہے۔کابل انتظامیہ کو مسودہ طے پانے پر شدید سبکی و شرمندگی کا سامنا ہوا تھا اس لئے ان کے شدید ردعمل کا آنا متوقع تھا ۔ صدر ٹرمپ جن معاملات میں ریلیف چاہتے تھے ، جنگ بندی کے علاوہ تقریباََ ان کی تمام باتوں کو تسلیم کرلیا گیا تھا ۔ شاید انہوں نے ایسے افغان طالبان کی کمزوری سمجھا کہ افغان طالبان مزید جنگ سے تھک گئے ہیں۔ نیز افغان طالبان کے حلیف ممالک کی جانب سے اس بات کی یقین دہانیوں نے بھی امریکی صدر کو عجلت میں مجبور کیا افغان طالبان کے سابقا حلیف ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں رہے اس لئے افغان طالبان مشکلات کا شکار ہیں۔بہرصورت کابل انتظامیہ اور افغان مفاہمتی عمل کے مخالفین کی کوششیں کامیاب نظر آتی ہیں ۔ کابل انتظامیہ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کردیا کہ اگر انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ مذکرات میں انہیں شریک اقتدار نہیں کرایا تو مستقبل میں ان کا ساتھ دینا ممکن نہیں ہوگا ۔ اور باقی بچے کچے علاقے بھی افغان طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے۔
پاکستان بھی افغانستان میں ماضی کی طرح مزید جنگ کا سہولت کار بننے سے انکار کرچکا ہے اور افغانستان کے تنازعے کو ان کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اس لئے امریکا کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ماضی کی طرح پاکستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکے۔پاکستان اس وقت مقبوضہ کشمیر کے بدترین حالات کی وجہ سے خود جنگی حالات کا شکار ہے اس لئے پاکستان کی جانب سے کھرا جواب مل چکا ہے کہ پاکستان کی سلامتی خود خطرے میں ہے ان حالات میں پاکستان دوبارہ کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتا ۔ یمن جنگ میںپاکستان کی عدم شمولیت پر عرب ممالک کی ناراضگی کی بھی یہی وجہ رہی ہے کہ پاکستان ، ایران کے ساتھ عرب ممالک کے تنازعے میں فریق بن کر مملکت کو جنگ کا نیا ایندھن نہیں بنانا چاہتا۔مناسب یہی تھا کہ صدر ٹرمپ طے شدہ مسودے کو آگے بڑھاتے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی تک عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے ۔ حالاں کہ صدر ٹرمپ ‘ یوٹرن ‘ لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور ان کے فیصلوں میں سنجیدگی بھی کم دکھائی دیتی رہی ہے اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ جرمنی و قطر فارمیٹ کے تحت چلانے والے مذاکرات کے پس پردہ ممالک اہم کردار ادا کریں ۔صدر ٹرمپ صدارتی انتخابات کے بعد بھی اپنی افواج میں کمی کرسکتے ہیں اور نئے سیکورٹی معاہدے کو کابل کی نئی انتظامیہ سے منظور کرالیں گے ، لیکن اس سے افغانستان میں امریکا پھر بھی مضبوط نہیں ہو گا۔